Tuesday, 27 March 2012

غزوہ بدر: جب ایک معرکہ برپا ہوا۔

فریال یاور صاحبہ اسلامی مضامین کو انتہائی خوبصورت انداز میں تحریر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ غزوہ بدر کے حوالے سے ان کی یہ تحریر دلوں میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت کے جذبہ کو بڑھادیتی ہے۔ امید ہے کی قارئین کو ان کی یہ تحریر پسند آئے گی۔ 
٭....٭....٭
سولہ تاریخ کاپورا چاند آسمان پر روشن ہے جس کی چاندنی صحرا اورمیدانوں کو بھی روشن کیے ہوئے ہے ....اس کی روشنی میں یہ میدان بھی بالکل صاف نظرآرہاہے جہاں اللہ کے نیک بندوں کا ایک چھوٹا سا مجمع اس وقت موجودہے ، انہیں رات کی خاموشی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے نہ چاندنی رات کاحسن ....اس وقت یہ نیک بندے عشاءکی نماز کے بعد نوافل اورذکرالٰہی میں مشغول ہیں ....کوئی بہت خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کررہاہے تو کوئی ہچکیوں کے ساتھ دعاکررہاہے ....کوئی سجدے میں سررکھے گڑگڑارہاہے، غرض سب ایک اللہ کے آگے اپنی التجا اپنے اپنے انداز سے کررہے ہیں۔

یہاں سے کچھ ہی دورکفار اپنے خیموں میں موجود ہیں ۔ ان کے خیموں کی اورہی صورتحال ہے ۔ بُھنے گوشت کی دعوت اڑائی جارہی ہے، شراب کے پیالے چھلکائے جارہے ہیں، قہقہے پہ قہقہے پڑرہے ہیں ، خاندانی بہادری کے قصے سنائے جارہے ہیں اورغرور وتکبر کے ساتھ بڑے بڑے دعوئے کیے جارہے ہیں ، ساتھ ہی بدتمیز نوجوان کاشوروغل ،جب پیٹ بھنے گوشت سے بھرگئے،شراب نے ہوش وحواس گم کردئیے اورسب شوروغل مچارکر تھک گئے تو خراٹے لینے لگے، آدھی سے زیادہ رات بیت چکی ہے مسلمانوں نے بھی جب نمازیں پڑھ لیں اوردعائیں مانگ چکے تو دل میں اللہ کی مدد کی امید رکھ کرسوگئے ۔ اب ہرطرف خاموش ہے اور اس خاموشی کوکوئی پرندہ بھی نہیں توڑتا۔
٭....٭....٭
کمان پوسٹ کے دروازے پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہرہ پر موجود ہیں اورکمان پوسٹ کے اندر سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ سے التجا کرنے کی آواز اس گہری خاموشی میں صاف سنائی دے رہی تھی:”اے اللہ ! یہ قریش کے لوگ اپنے غرور وتکبر کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کوجھوٹا ثابت کریں، خدا وند جس مدد کا تونے مجھ سے وعدہ کیاتھا اب وہ آجائے، اے اللہ! اگر تیری یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر کہیں تیری عبادت نہ ہوگی، اے اللہ! کل ان لوگوں کاکام تمام کردے ۔ اے اللہ! اس امت کافرعون ابوجہل بچ کرنہ جائے۔“ یہ روحانی تذکرہ غزوہ بدرکاہے جسے قرآن میں ”یوم فرقان“( یعنی حق وباطل کے درمیان فرق کادن) فرمایاہے۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعاکو بہت خاص اہمیت حاصل ہے، یہ دعا اس والہانہ طریقے سے مانگی گئی کہ کندھے سے چادر گرپڑتی تھی اورریش مبارک آنسوﺅں سے لبریز ہوگئی پھراچانک پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی خوشی کے عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومخاطب کرتے ہیں کہ:”اے ابو بکر ! خوشخبری سن لوکہ جبرائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ آئے ہیں،اللہ کاوعدہ پوراہوگیا اوردعائیں قبول ہوگئی۔“

بدر مکہ معظمہ سے سو ، دوسو یا اسّی میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے مگریہاں حق وباطل کی اس جنگ نے اسے ہمیشہ کےلئے محترم بنادیا۔
غزوہ بدر میں کفارکی فوج کی تعداد ایک ہزار یا اس سے کچھ زیادہ تھی ....ادھر مسلمانوں میں مہاجرین وانصار کو ملاکر کل تعداد تین سو تیرہ تھی اورصرف تین گھڑسوارتھے جب کہ باقی لوگ ستر اونٹوںپرباری باری سوارہوتے تھے، ساٹھ آدمیوںکے پاس زرہیں تھیں،اوراسلحہ بھی تھوڑاساتھاخودرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باری باری ایک اونٹ پرسوار ہوتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیاں بھی اتروادیں تھیں تاکہ سفر خاموشی سے طے ہو۔

یہ ماہ رمضان کی مبارک گھڑیاں تھیں اوراس سال روزے فرض ہوئے تھے اس لئے بعض صحابہ کرامؓ روزے سے تھے،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھاتھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروایا کہ روزہ داربھی روزہ کھول لیں کیونکہ دشمن سے مقابلہ کےلئے قوت کی ضرورت ہے۔

جب میدان بدر پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونچی جگہ خیمہ لگانے کاارادہ کیالیکن ایک صحابی حضرت خباب بن المنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے اس جگہ لگائے ، جہاں بدرکے کنویں تھے تاکہ پانی پر کفار قبضہ نہ کرسکیں ....اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان بدر کا ایک چکر لگایا اورایک نیزے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کے مختلف حصوں میں دائرے بنائے ، فرمایا :”یہاں ”ابو جہل “ قتل ہوگا، یہاں”عتبہ “ قتل ہوگا، یہاں ”شیبہ “ یہاں فلاں فلاں.... جنگ کے دن ان دائروں سے کوئی بھی ایک انچ اِدھر اُدھر قتل نہیں ہوا۔

دوسرے دن جنگ سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی صف بندی کی اورلوگوں کوجنگ سے متعلق حکمت عملی سمجھائی ۔ جب صفیں درست ہورہی تھیں تو جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خوبصورت واقعہ پیش آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت سواربن غزیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صف سے باہرنکلے ہوئے ہیں ....آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لکڑی سے حضرت سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیٹ کو ہلکے سے ٹہوکا دیا اورصف کے اندر ہونے کو کہا ۔ حضرت سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آ پ کو انصاف دیکر بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تکلیف پہنچائی آپ مجھے اس کا بدلہ (قصاص) دیں، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لکڑی حضرت سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی کہ وہ بدلہ لے لیں اورپیٹ پرسے کرتا اٹھادیا، حضرت سوار رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اورمحبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم مبارک کوچوما اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اورکہاکہ : ”میںنے چاہا کہ جانے سے پہلے آپ کوچومنا اورآپ کے جسم مبارک کو چھونا نصیب ہوجائے اس لیے میں نے اپنی خواہش پوری کرلی۔“

اس کے بعد جنگ اس طرح شروع ہوئی کہ پہلے تین بہادر کفار کی طرف سے باہرنکلے ۔ ”عقبہ بن ربیعہ “ اس کا بھائی ”شیبہ بن ربیعہ “ اورعتبہ کا بیٹا ”ولید بن عتبہ “ اورانہوںنے مقابلے کا اعلان کیا تو مسلمانوں میں سے تین بہادر معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عفرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے) اورحضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقابلے پر آئے، عتبہ نے تینوں سے ان کام نام اورخاندان پوچھا انہوںنے بتایاکہ وہ انصار مدینہ میں سے ہیں اس پر عتبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام دیاکہ اپنے خاندان والوں کو ہم سے مقابلے کےلئے بھیجو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان میں حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب کو مقابلے کے لیے ، نام لیکر بھیجا۔ انہوںنے جاکر عتبہ کو اپنے نام ونسب بتایا تو ان کی تسلی ہوئی ....پھرمسلمانوں اورکفارکے ان تینوں بہادروں کا باہم مقابلہ ہوا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جھپکتے میں اپنے دشمنوں کو ختم کردیا لیکن عتبہ اورحضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیرتک ایک دوسرے پر حملہ کرتے رہے اس دوران دونوں بری طرح زخمی ہوئے اورحضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عتبہ کو قتل کیا اورحضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زخمی حالت میں خیمے میں لے کرآئے جب کفارکے یہ تینوں سورما مارے گئے تو انہیں خوب غصہ آیا کیوںکہ یہ ان کے سب سے زیادہ بہادر لوگ تھے.... انہوںنے غصے میں آکرمسلمانوں پرحملہ کردیا اوراس طرح عام جنگ شروع ہوئی ....جس میں مسلمانوں نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا اورفتح حاصل کیں اورپھرکئی ایسے عوامل بھی تھے جو مسلمانوں کی فتح میں اہم ثابت ہوئے۔

۱۔ ایک ہزار کالشکر اللہ نے مسلمانوں کو تھوڑا دیکھایا اورکفارکو تین سو تیرہ کا ممجع بڑا کرکے دیکھایا ....یوں تھوڑے سے لشکر کودیکھ کر مسلمانوں کا حوصلہ بلند رہا اوروہ بے خوف لڑے جبکہ کفارکا معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ 

۲۔ اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرشتوں کے ذریعے کی جیساکہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے پہلے ایک ہزار فرشتوں کو حضرت جبرائیل کے ہمراہ آسمان سے اترتے دیکھا تھا۔ جنگ کافیصلہ ہوچکا کم سامان جنگ ہونے کے باوجود مسلمانوں کو فتح ہوئی اورغرور کے مارے کفارکوبری شکست ہوئی ....ان کے اشراف کی جڑیں کٹ چکی تھی کچھ قتل ہوئے کچھ قید ہوئے اوربعض نے بھاگ کرجان بچائی۔

جس طرح تاریخ میں غزوہ بدر کی اہمیت وعظمت ہے ، اسی طرح صحابہ کرام میں بدری صحابہ کو بھی فضلیت حاصل ہے اورساتھ ہی ان فرشتوں کو بھی جنہوںنے غزوہ بدر کے موقع پر جبرائیل کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیا....عام فرشتوں پرفضلیت حاصل ہے۔ حضرت رافعرضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خدیج فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل، رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورسوال فرمایا :”جو لوگ آپ میں سے جنگ بدر میں شریک ہوئے آپ کے نزدیک کس مرتبہ پرفائزہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ ہم میں بہترین درجہ کے حضرات ہیں۔“ تو حضرت جبرائیل نے فرمایا:”اسی طرح ہمارے ہاں بھی وہ فرشتے بہترین درجہ پرفائز ہیں (جوجنگ بدر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کی مددکرنے کےلئے نازل ہوئے تھے)(سنن ابن ماجہ،صحیح بخاری)۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہفرماتے ہیں (جنگ بدر میں)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے داہنے میں حضرت جبرائیل ایک ہزار فرشتے لیکرنازل ہوئے اورحضرت مکائیل بھی ایک ہزار فرشتے لیکر نازل ہوئے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے بائیں، حضر ت اسرافیل ایک ہزار فرشتے لیکرنازل ہوئے۔“ اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ بدرمیں فرشتوں کی علامت سفید پگڑیاں تھیں ، جن کا کنارہ انہوںنے اپنی پشتوں پرچھوڑ ہواتھا اوران کے گھوڑے سیاہ اورسفید نشان کے تھے اوران کی پشانیوں اوردموں پر اون تھی(ابن جریر) یہاں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے اون جنگ بدر میں پہنی گئی کیونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ” اون پہناکروکیونکہ(جنگ بدر) میں فرشتوں نے اون پہنی ہے اوراسی طرح فرشتوں کی ضرب کانشان بھی علیحدہ پہچان رکھتا تھا ۔ فرشتے جب کسی کافرکو ضرب لگاتے وہ جلے ہوئے کانشان چھوڑتا(ابن جریر)۔ مسلمانوں نے اسی طرح ضرب کے ذریعے پہچانا کہ کس کافر کو فرشتے نے ہلاک کیا ہے۔

واقعہ بدر کی عظمت اوراس کا تذکرہ قرآن پاک کی سورة انفال میں بھی آیا ہے اورحق وباطل کی یہ لڑائی اس لحاظ سے بھی عظیم ہے کہ اس میں مسلمان صرف اپنے قوت ایمانی پرلڑے کہ جس نے ایک ہزار کے لشکر کو شکست دی اورمجاہدین کی قلیل تعداد اورکم سامان جنگ کے باوجود فتح عظیم حاصل ہوئی۔

آج جب لادین عناصر کھلم کھلا دشمنی پر اترآئے ہیں تو ہمیں اس تنگی اورعظیم امر سے سوائے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے اورکوئی چیز نہیں نکال سکتی۔
”اے اللہ ! ہمارے سامنے حق کو ظاہر کراوراس کی اتباع کی توفیق عطا فرما اورباطل کو باطل ظاہر کراوراس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ “ آمین

How to weep for fear of Allaah


Undoubtedly your feelings of regret for missing out on this blessing is a very good sign. You should note that the Muslim can accustom himself to weep for fear of Allaah, by doing the following:

1 – Making yourself feel fear of Allaah.

This weeping is the fruit of beneficial knowledge, as al-Qurtubi says in his commentary on the verse (interpretation of the meaning):

“And they fall down on their faces weeping”

[al-Isra’ 17:109]

This is an eloquent description of them and praise for them. It is the duty of everyone who acquires knowledge to reach this level, so that when he hears the Qur’aan he is filled with fear and humility.

In Musnad al-Daarimi it is narrated from Abu Muhammad that al-Taymi said: Whoever is given knowledge and does not weep, he deserves not to have any knowledge, because Allaah has described those who have knowledge; then he recited this verse.

Al-Jaami’ li Ahkaam il-Qur’aan, 10/341-342.

2 – Reading the Qur’aan and pondering its meanings

Allaah says (interpretation of the meaning):

“Say (O Muhammad to them): Believe in it (the Qur’aan) or do not believe (in it). Verily, those who were given knowledge before it, when it is recited to them, fall down on their faces in humble prostration.

108. And they say: Glory be to our Lord! Truly, the Promise of our Lord must be fulfilled.

109. And they fall down on their faces weeping and it increases their humility”

[al-Isra’ 17:107-109]

“Those were they unto whom Allaah bestowed His Grace from among the Prophets, of the offspring of Adam, and of those whom We carried (in the ship) with Nooh (Noah), and of the offspring of Ibraaheem (Abraham) and Israel, and from among those whom We guided and chose. When the Verses of the Most Gracious (Allaah) were recited unto them, they fell down prostrate and weeping”

[Maryam 19:58]

It was narrated that Ibn Mas’ood (may Allaah be pleased with him) said:
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said to me: “Recite the Qur’aan to me.” I said: “O Messenger of Allaah (sallallahu 'alayhi wa sallam), shall I recite it to you when it was revealed to you?” He (sallallahu 'alayhi wa sallam)said: “I like to hear it from someone else.” So I recited Soorat al-Nisa’ to him, and when I reached this verse – “How (will it be) then, when We bring from each nation a witness and We bring you (O Muhammad) as a witness against these people?” [al-Nisa’ 4:41] – he (sallallahu 'alayhi wa sallam) said: “That is enough for now.” I turned to him and saw his eyes were streaming with tears.
Narrated by al-Bukhaari, 5050; Muslim, 800.

3 – Knowing the greatness of the reward for weeping, especially when one is alone.

It was narrated that Abu Hurayrah (may Allaah be pleased with him) said: The Messenger of Allaah (sallallahu 'alayhi wa sallam) said: “A man who weeps for fear of Allaah will not enter Hell until the milk goes back into the udder, and dust produced (when fighting) for the sake of Allaah and the smoke of Hell will never coexist.”
Narrated by al-Tirmidhi, 1633; al-Nasaa’i, 3108; classed as saheeh by al-Albaani.

“until the milk goes back into the udder” is a metaphor for it being impossible, as in the verse where Allaah says (interpretation of the meaning): “and they will not enter Paradise until the camel goes through the eye of the needle”
[al-A’raaf 7:40]. Tuhfat al-Ahwadhi.

And it was narrated that he said: The Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “There are seven whom Allaah will shade with His shade on the day when there will be no shade but His: a just ruler; a young man who grows up worshipping Allaah; a man whose heart is attached to the mosque; two men who love one another for the sake of Allaah, meeting and parting on that basis; a man who is called (to commit sin) by a woman of high status and great beauty and he says, ‘I fear Allaah’; a man who gives in charity so secretly that his left hand does not know what his right hand is doing; and a man who remembers Allaah when he is alone and his eyes flow with tears.” Narrated by al-Bukhaari, 660; Muslim, 1031.

Weeping when alone is singled out because being alone is a time when the heart tends to become harder and there is a stronger motive to commit sin, and it is farthest removed from the possibility of showing off. So if a person strives to do this, and makes himself feel the greatness and might of Allaah, and his eyes flow with tears, then he deserves to be beneath the shade of the Throne of the Most Merciful on the Day when there will be no shade but His shade.

4 – Thinking about your situation and your boldness in committing sin, and fearing to meet Allaah in such a state.

One of the righteous people used to weep night and day, and something was said to him about that. He said: “I am afraid that Allaah will see me committing sin and will say: ‘Go away from Me for I am angry with you.’” Hence Sufyaan used to weep and say: “I am afraid that my faith will be taken away at the moment of death.”

Ismaa’eel ibn Zakariya described Habeeb ibn Muhammad, who was a neighbour of his. He said: “Every evening I heard him weeping and every morning I heard him weeping, so I went to his wife and said: ‘What is the matter with him? He weeps in the evening and he weeps in the morning!’ She said to me: ‘By Allaah, when evening comes he fears that he will not live till morning and when morning comes he fears that he will not live till evening.’”

The salaf used to weep and grieve a great deal.

When Yazeed al-Raqaashi was criticized for weeping a great deal and it was said to him, “If the Fire had been created exclusively for you, you would not weep more than this,” he said: “Has the Fire been created for anyone other than me and my companions and brothers among the jinn and mankind?”

When ‘Ata’ al-Sulaymi was asked: “What is this grief?” he said: “Woe to you! Death is close at hand, the grave is my house, on the Day of Resurrection I will stand and my path is over a bridge across Hell, and I do not know what will become of me.”

Faddalah ibn Sayfi used to weep a great deal. A man entered upon him when he was weeping and said to his wife: “What is the matter with him?” She said: “He says that he wants to undertake a long journey and he does not have proper provision for it.”

One night al-Hasan woke up weeping, and he disturbed the other people in the house with his weeping. They asked him what was the matter and he said: “I remembered a sin that I committed and I wept.”

It was narrated that Tameem al-Daari (may Allaah be pleased with him) recited this verse (interpretation of the meaning): “Or do those who earn evil deeds think that We shall hold them equal with those who believe (in the Oneness of Allaah Islamic Monotheism) and do righteous good deeds” [al-Jaathiyah 45:21] and he started repeating it and weeping until morning came.

Hudhayfah (may Allaah be pleased with him) used to weep intensely, and it was said to him: “Why are you weeping?” He said: “I do not know what is ahead of me – Divine pleasure or divine wrath.”

Sa’d ibn al-Akhram said: I was walking with Ibn Mas’ood and he passed by the blacksmiths, who had brought a piece of iron out of the fire. He stood and looked at the molten iron and wept.

5 – Making yourself feel regret and feeling that you have fallen short in your duties towards Allaah.

The tears of the repentant at night quenches thirst and cure sickness, as the Shaykh of the Mufassireen, Abu Ja’far al-Tabari, said in his commentary on the verse (interpretation of the meaning):

“Do you then wonder at this recitation (the Qur’aan)?

60. And you laugh at it and weep not”

[al-Najm 53:59-60]

Do not weep at the warnings contained therein to those who disobey Allaah, when you are people who commit sin, “Wasting your (precious) lifetime in pastime and amusements (singing)” [al-Najm 53:61] – you are heedless of the lessons and reminders contained therein, turning away from its verses.

Jaami’ al-Bayaan ‘an Ta’weel Aayi al-Qur’aan, 27/82.

6 – Weeping out of fear of a bad end.

It was narrated that Ibn ‘Umar (may Allaah be pleased with him) said: When the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) passed by al-Hijr (the land of the people of Thamood) he said: “Do not enter the dwellings of those who wronged themselves, lest what befell them befall you, unless you are weeping.” Then the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) covered his head and walked quickly until he had left the valley.
Narrated by al-Bukhaari, 3380; Muslim, 2980.

Al-Nawawi included this hadeeth in a chapter entitled “Weeping and feeling fear when passing by the graves of the wrongdoers and the places where they were killed, and expressing one's need of Allaah, and being careful not to be negligent in that.”
Riyaadh al-Saaliheen, p. 373.

7 – Listening to moving speeches and lectures that will soften the heart.

It was narrated that al-‘Irbaad ibn Saariyah (may Allaah be pleased with him), who was one of those who used to weep, said: “The Messenger of Allaah (sallallahu 'alayhi wa sallam) delivered a deeply moving speech at which our eyes began to overflow and our hearts melted.” Narrated by al-Tirmidhi, 2676; Abu Dawood, 4607; Ibn Maajah, 42; classed as saheeh by al-Albaani.

May Allaah help us and you to do that which our Lord loves and is pleased with him
 

Do Not Sleep On Your Stomach

• Takhfah ibn Qays al-Ghifaari (RadhiALLAHu Anho) said: When I was lying on my stomach in the Masjid just before dawn, a man nudged me with His foot and said •►'This manner of lying is hated by ALLAH.'
I looked and saw that it was the Messenger of ALLAH (sallALLAHu ályhi wasallam).
...
--Narrated by Ahmad
--Abu Dawood in al-Sunan, Kitaab al-Adab, no. 5040]


• Ibn Takhfah al-Ghifaari that Abu Dharr (RadhiALLAHu Anho) said: The Prophet (sallALLAHu ályhi wasallam) passed by me and I was lying on my stomach. He prodded me with his foot and said •►
'O Junaydib! This is how the people of Hell lie.'

--Ibn Majaah - 3724, al-Tirmidhi, no. 2798,
--Saheeh al-Jaami’, 2270-2271

THE ICE CREAM

In the days when an ice cream sundae cost much less, a 10 year old boy entered a hotel coffee shop and sat at a table. A waitress put a glass of water in front of him. 

“How much is an ice cream sundae?” he asked. 

“Fifty cents,” replied the waitress.

The little boy pulled his hand out of his pocket and studied the coins in it. “Well, how much is a plain dish of ice cream?” he inquired. By now more people were waiting for a table and the waitress was growing impatient.

“Thirty- five cents,” she brusquely replied.

The little boy again counted his coins. “I’ll have the plain ice cream,” he said.

The waitress bought the ice cream, put the bill on the table and walked away. The boy finished the ice cream, paid the cashier and left. When the waitress came back, she began to cry as she wiped down the table. There, placed neatly beside the empty dish, were two nickels and five pennies – You see, he couldn’t have the sundae, because he had to have enough left to leave her as tip.

May ALLAH grant us the ability to have patience and not always judge a situation. Aameen. For what knowledge do we have of the intentions of a person? The situation they are in?

Ganon ke kufriya ashar



ISLAMIC PICTURES/WALLPAPERS

BEST COLLECTION OF ISLAMIC WALLPAPERS
















~ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔~



1909ء کا ذکر ہے ۔ اتوار کا دن تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی ۔ علامہ مشرقی کسی کام کے لیے باہر نکلے 


تو دیکھا کہ مشہور ماہر فلکیات سر جیمس جینز چرچ کی طرف جارہے ہیں ۔ علامہ مشرقی یہ دیکھ کر حیران ہوئےکیونکہ عام طور پر سائنس دان مذہبی رسومات کے قائل نہیں ہوتے ۔
علامہ مشرقی نے بڑھ کرسر جیمس جینز کو مؤدبانہ سلام کیا۔ سر جیمس جینز نے ان کے سلام کا نوٹس نہ لیا اور چلتے رہے ۔ مشرقی نے ان کا پیچھا کیا اور دوبارہ سلام کیا۔ سر جیمس جینز رک گئے ۔ حیرت سے پوچھا : "بولوکیا چاہتے ہو؟"
اہل مغرب بے مقصد ادب و احترام بھرے سلام سے واقف نہیں ہوتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سلام کرنے والے کا کوئی مقصد ہوتاہے ۔ اس لیے سر جیمس نے کہا :" بولو، کیا چاہتے ہو؟"
مشرقی نے کہا :" دو باتیں عرض کرنا چاہتاہوں ۔"
سر جیمس بولے ۔ "ہاں ہاں کہیئے !"
مشرقی نے کہا : " پہلی بات یہ ہے کہ بوندا باندی ہورہی ہے لیکن آپ نے چھاتا بغل میں رکھا ہے اسے کھولا نہیں ۔"
سر جیمس اپنی بد حواسی پر مسکرائے اور چھاتا کھول لیا ۔
مشرقی نے کہا :" دوسری بات یہ کہ آپ چرچ کی طرف عبادت کے لیے جارہے ہیں ؟"
مشرقی کے اس سوال پر سر جیمس لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوئے پھر بولے :آپ آج شام کو چائے میرے ساتھ پیئں ، بیٹھ کر چائے پر بات کریں گے ۔"
مشرقی شام کو سر جیمس کے گھر پہنچے ۔ سر جیمس انتظار کر رہے تھے ۔ تپائی پر چائے لگی ہوئی تھی ۔
سر جیمس نے اجرام فلکی کے حیرت انگیز نظام کی بات شروع کی ۔ ان کے لامتناہی فاصلے ، پہنائیاں ، پچیدہ مدار کی تفصیلات بیان کرنے لگے ۔ان کی باتیں سن کر مشرقی کا دل اللہ کی کبریائی اور جبروت سے دہلنے لگا۔ خود سر جیمس کی یہ کیفیت تھی کہ ان کے بال کھڑے تھے ، آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں ، ہاتھ کانپ رہے تھے، آواز لرز رہی تھی ۔ بولے: "عنایت اللہ خان ! جب میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میرا رواں رواں اللہ کے جلال لرزنے لگتاہے۔ جب گرجے میں جاکر کہتاہوں ، اللہ! تو عظیم ہے تو میرے جسم کا رواں رواں اس کی شہادت دیتا ہے۔ مجھے عبادت میں دوسروں کی نسبت ہزار گنا زیادہ کیف حاصل ہوتاہے۔"
علامہ مشرقی نے کہا : عالی جاہ! " اس بات پر مجھے قرآن حکیم کی ایک بات یاد آگئی ہے اجازت ہو تواس کا مطلب بیان کروں ؟"
"ضرو رضرور "۔ سرجیمس بولے۔
مشرقی نے عربی میں آیت پڑھی اور ، کہنے لگے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے صرف اہل علم ہی ڈرتے ہیں۔"
"کیا واقعی؟" سر جیمس حیرت سے چّلائے ۔ " یہ وہ حقیقت ہے جسے میں نے سالہا سال کے مطالعے اور مشاہدے کے بعد جانا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس عظیم حقیقت کا علم کیسے ہوا؟ اگر یہ آیت قرآن میں موجود ہے تو بے شک قرآن الہامی کتاب ہے۔"
 

Maulana Tariq Jameel bayan in FAST University Mp3 Bayan

THE JAR


A philosophy professor stood before his class and had some items in front of him. When class began, wordlessly he picked up a large empty mayonnaise jar and proceeded to fill it with rocks right to the top, rocks about 2” diameter. He then asked the students if the jar was full? They agreed that it was.

So the professor then picked up a box of pebbles and poured them into the jar. He shook the jar lightly. The pebbles, of course, rolled into the open areas between the rocks. The students laughed. He asked his students again if the jar was full? They agreed that yes, it was.

The professor then picked up a box of sand and poured it into the jar. Of course, the sand filled up everything else.

“Now,” said the professor, “I want you to recognize that this is your life.

The rocks are the important things – your faith, your beliefs, your family, your partner, your health, and your children – anything that is so important to you that if it were lost, you would be nearly destroyed.

The pebbles are the other things in life that matter, but on a smaller scale. The pebbles represent things like your job, your house, your car etc.

The sand is everything else. The small stuff. If you put the sand or the pebbles into the jar first, there is no room for the rocks.

The same goes for your life.

If you spend all your energy and time on the small stuff, material things; you will never had room for the things that are truly most important. Pay attention to the things that are critical in your life.

Play with your children. Spend quality time with your spouse. There will always be time to go to work, clean the house, fix the car etc.

“Take care of the rocks first – the things that really matter. The rest is just pebbles and sand.”
 

Kuch Uski Khabr Hai Tujh Ko



Kuch Uski Khabr Hai Tujh Ko,
Wo Roz-e-Jahan'num Kya Ho Ga ?

Jis Aag Ke Eendhan Insan Ho'n,
Us Aag Ka Aalam Kya Ho Ga ?

Jab Rooh Khiche Jaye Gi Rag Rag Se,
Us Waqt Ka Aalam Kya Ho Ga ?

Jab Jism Gawahi Khud De Ga,
Har His'sa Badan Ko Bole Ga,

Khamosh Zuban Ho Jaye Gi,
Us Waqt Ka Aalam Kya Ho Ga,

Ik Bar Khata Agar Ho Jaye,
Soo Bar Adab Se Toba Kar,

Ik Ishak Yaha Ka Behtar Hai,
Waha Rone Ka Aalam Kya Ho Ga ??
 

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...