Tuesday 11 December 2012

ﷺ قبر پر میّت کی مغفرت کی دعا کرنا



-----------------------------------------------
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسُول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ
جب میّت کے دفن سے فارغ ہو جاتے تو قبر کے پاس کھڑے ہوتے اور فرماتے : اپنے اِس بھائی کے لئے اﷲ تعالیٰ سے مغفرت کی دُعا کرو۔ اور یہ بھی استدعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ اس کو سَوالوں کے جواب میں ثابت قدم رکھے۔ کیونکہ اس وقت اس سے پوچھ گچ
ھ ہو گی۔ 
(ابوداؤد)


ﷺ قبر میں مردہ سے تین سوال کئے جا ئیں گے:
---------------------------------------------------------
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 
(اﷲ کا مو من بندہ جب قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو) اس کے پاس اﷲ کے دو فرشتے آ کر اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ 
تیرا رب کون ہے ؟ 
وہ کہتا ہے کہ میرا رب اﷲ ہے۔ 
پھر پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ 
وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے۔ 
پھر پوچھتے ہیں کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر نبی کی حیثیت سے کھڑا کیا گیا تھا (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ وہ کہتا ہے وہ اﷲ کے سچے رسول ہیں۔ وہ فرشتے کہتے ہیں کہ تمہیں یہ بات کس نے بتلائی ؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اﷲ کی کتاب پڑھی تو میں ایمان لایا اور میں نے ان کی تصدیق کی۔

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن بندہ کا یہی جواب ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کو سچی پکی بات کی برکت سے ثابت رکھے گا، دنیا میں اور آخرت میں۔یعنی وہ گمراہی سے، اور اس کے نتیجہ میں آنے والے عذاب سے محفوظ رکھے جائیں گے۔
(مسند احمد، ابوداؤد)


ﷺ نیک مردہ قبر سے جنت کا نظارہ کرتا ہے:
----------------------------------------------------
اس کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پھر ایک ندا دینے والا آسمان سے ندا دیتا ہے کہ میرے بندے نے ٹھیک بات کہی۔ اور صحیح صحیح جوابات دیئے۔ لہٰذا اس کے لئے جنت کا فرش کرو اور جنت کا اس کو لباس پہناؤ۔ اور جنت کی طرف اس کے لئے ایک دروازہ کھول دو۔ چنانچہ وہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس سے جنت کی خوشگوار ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں۔ اور جنت میں اس کے لئے منتہائے نظر تک کشادگی کر دی جاتی ہے۔
(مسند احمد، ابوداؤد)



ﷺ قبر میں کافر مُردہ پر عذاب کا احوال:
---------------------------------------------
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان نہ لانے والے کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا:
اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔ اور اس کے پاس بھی دو فرشتے آ کر اس کو بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے :’’ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا‘‘ پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ دین تیرا کیا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ ’’ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔ پھر فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر بحیثیت نبی کے مبعوث ہوا تھا، تمہارا اس کے بارے میں کیا خیال تھا؟ وہ پھر بھی یہی کہتا ہے :’’ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔ 
پس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے منادی ہو گی کہ دوزخ کا اس کو لباس پہناؤ اور اس کے لئے دوزخ کا ایک دروازہ کھول دو۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :’’دوزخ کی گرمی اور جلانے جھلسانے والی ہوائیں اس کے پاس آتی رہیں گی اور اس کی قبر اس پر نہایت تنگ کر دی جائے گی۔ جس کی وجہ سے اس کی پسلیاں اِدھر سے اُدھر ہو جائیں گی۔ پھر اس پر عذاب کا ایک ایسا فرشتہ اس پر مسلط کیا جائے گاجس کے پاس لوہے کی ایسی مونگری ہو گی کہ اگر اُس کی ضرب کسی پہاڑ پر لگائی جائے تو وہ بھی مٹی کا ڈھیر ہو جائے۔ وہ فرشتہ اس مونگری سے اس پر ایک ضرب لگائے گا جس سے وہ اس طرح چیخے گا جس کو جن وانس کے علاوہ وہ سب چیزیں سنیں گی جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہیں۔
(مسند احمد، ابوداؤد

Tuesday 4 December 2012

Islamic Quotes

Drinking Water

خنزیر (سؤر ) کا گوشت حرام کیوں ہے ؟



-----------------------------------------------
سوال : میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ خنزیر کا گوشت حرام کیوں ہے؟ اس سوال کے پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس سے اجتناب کرنے میں مجھے کوئی پروبلم نہیں ہے، لیکن اسٹرلیا کے میرے کچھ احباب پوچھتے ہیں کہ اگر تم لوگ بڑے کا گوشت ، بھیڑ، اور چکن کا گوشت کھاتے ہو توپھر خنزیر کا گوشت کیوں نہیں کھاتے ہو؟ میں نے ا
ن کو یہ وجہ بتائی کہ طبی اعتبار سے یہ صحت کے لیے مفید نہیں ہے، مگر وہ کہتے ہیں کہ اگر تم اسے اچھی طرح سے پکاؤ تو یہ صحت کے لیے مضر نہیں ہے۔ براہ کرم، اس پر روشنی ڈال دیں۔

جواب: 

اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے 
(سورة البقرة, آية 168)

اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے 
(سورة البقرة, آية 173)

کھانے کی چیزیں جسمانی اور اخلاقی بگاڑ کا قوی ترین سبب ہیں یعنی انسان جیسی غذا کھائے گا ویسے ہی اثرات اس پر ہوں گے، 

یہ امر مسلّم ہے اور انسان پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس جانور (خنزیر) کا کھانا ہے، جس کی صورت میں بعض اقوام کا مسخ واقع ہوا ہے اور مسخ کا تذکرہ سورة المائدہ میں موجود ہے اور جس جانور کی صورت میں مسخ واقع ہوتا ہے، وہ خبیث ترین جانور ہوتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی پھٹکار اورناراضگی کی وجہ سےاس کا مزاج ایسا بن جاتا ہے جو سلامتی سے برطرف اور نہایت دور ہوتا ہے اور یہ تبدیلی اس حد تک ہوجاتی ہے کہ وہ انسان ہی باقی نہیں رہتا اور یہ بھی جسمانی تعذیب کی ایک صورت ہے اور جب ایسا موقع آتا ہے تو اس شخص کا مزاج ایسے خبیث جانور کے مزاج کی طرف منقلب ہوجاتا ہے جس سے سلیم طبیعتیں نفرت کرتی ہیں اور اللہ کے علم ازلی میں اس خبیث جانور اوراس مبغوض اور رحمت سے دور کیے ہوئے انسان کے درمیان کوئی مخفی سبب ہوتا ہے اور اس کے درمیان اور سلیم الفطرت لوگوں کے درمیان آسمان وزمین کا تفاوت ہوتا ہے، پس ایسے جانور کا کھانا اور ا س کو اپنے بدن کا جزء بنانا، نجاستوں کے ساتھ اختلاط سے زیادہ سخت ہے۔ چنانچہ اولین رسول حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر مابعد تک تمام انبیاء خنزیر کو برابر حرام ٹھہراتے رہے ہیں اور اس سے کلی اجتناب کا حکم دیتے رہیں ہیں، یہاں تک کہ عیسی علیہ السلام اتریں گے، وہ بھی اس کو قتل کریں گے۔ (ماخوذ از رحمة اللہ الواسعة، شرح حجة اللہ البالغة)

________________

اس میں رتی برابر بھی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالی اور اسکے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احکامات کے تحت حرام کردہ فہرست میں ہر چیز انسان کے لیے مضر ہے جبھی اسے حرام قرار دیا گیا اور حلال کردہ فہرست میں کسی نہ کسی حوالے سے یقینا خیر اور بھلائی ہے جبھی اسے حلال کیا گیا۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک رحمۃ اللعالمین اور مومنین کے لیےہر طرح سے بہتری کے لیے حریص ہیں۔

♣ طبی طور پر مضر صحت گوشت ۔ ♣

سؤر یا خنزیر کے گوشت میں سائنسی و طبی اعتبار سے بےشمار خرابیاں ہیں ۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
------------------------------------
1۔سؤر دنیا کے چند غلیظ ترین جانوروں میں سے ایک جانور ہے جو کہ پیشاب و پاخانہ سمیت ہر گندی چیز کھاتا ہے۔ سائنسی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ خوراک کا براہ راست اثر جسم پر ہوتا ہے ۔

2۔ خنزیر کے گوشت اور چکنائی میں زہریلے مادے جذب کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسکے گوشت و چکنائی میں زہریلے مادے عام جانوروں کے گوشت کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ گویا یہ گوشت بقیہ عام گوشت سے 30 گنا زیادہ زہریلا Toxinہوتا ہے۔

3۔ سور اس قدر زہریلا ہوتا ہے کہ اژ دہے کے ڈسنے سے بھی نہیں مرتا۔ چنانچہ بعض اوقات سؤر فارم کے رکھوالے سؤروں کو اژدھوں کے بلوں کے پاس بھی چھوڑدیتے ہیں تاکہ اژدھے اس علاقے سے نکل جائیں۔

4۔ عام گوشت کے مقابلے میں خنزیر کے گوشت کے گلنے سڑنے کی رفتار 30 گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ یعنی عام گوشت سے بہت جلدی خنزیر سے گوشت میں کیڑے پڑتے ہیں۔ تجربہ کے طور پرچکن یا گائے کے گوشت کا ٹکڑا اور خنزیر کا ٹکڑا کھلی جگہ پر رکھ کر دیکھ لیں کونسے گوشت میں جلد بدبواور کیڑے پڑتے ہیں۔

5۔ سؤر گندگی و غلاظت میں ساری زندگی گذارتا ہے یعنی اسے غلاظت سے کراہت نہیں ہوتی۔ اسکا گوشت کھانے والے کے اندر بھی یہی خرابی پیدا ہوجاتی ہے
سؤر کا گوشت کھانے سے جنسی اشتہا تیزی سے بڑھتی ہے۔ انسان حرام حلال کی تمیز کیے بغیر اس جذبے کی تسکین چاہتا ہے

6۔ سؤر انتہا درجے کا بے غیرت جانور ہے۔ جنسی تسکین کے لیے نر و مادہ کوئی تمیز نہیں رکھتے۔ اسے کھانے والے معاشرے میں یہ خصوصیت باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔

امید ہے اگر ہم جدید سائنسی سوچ و فکر کے حامل ذہنوں کو مندرجہ بالا حقائق بتا کر پھر قرآن مجید میں خنزیر کی حرمت کے احکامات بتائیں گے تو یقینا اطمینان قلب و ذہن اور شرح صدر سے ان احکامات کی تعمیل پر آمادگی ہوجائے گی۔ان شاء اللہ العزیز۔

باقی واللہ اعلم بیشک حقیقی علم اللہ تعالی کو ہی ہے !

واللہ سبحانه و تعالیٰ اعلم بالصواب

Mustafa Jaan-e-Rehmat Pe Lakho Salam


Mustafa Jaan-e-Rehmat Pe Lakho Salam,
Shama-e-Bazm-e-Hidayet Pe Lakho Salam,

Jin Ke Qadmo Ko Mehrab-e-Ka'aba Jhuki,
Un Qadmo Ki Azmat Pe Lakho Salam,

Roz-e-Mehshar Hai Un Ki Zeyarat Ka Din,
Aise Roz-e-Qyamat Pe Lakho Salam,
صلى الله عليه وآله وسلم

Wednesday 21 November 2012

HADEES

Photo: ‎اس حدیث کو غور سے پڑھو  اور کسی پر بھی کوئی غلط بہتان لگانے سے یا سنی سنائی پر کسی کو بدنام کرنے سے بچو
یہ انتہائی گھٹیا فعل ہے جو ہم لوگوں سے جانے انجانے سرزد ہوتا رہتا ہے

اگر ہم خود بہت نیک، عبادت گزار اور پارسا بھی ہوں تب بھی ہمیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے
اور اگر کبھی ایسا کرنے لگو تو ایک نظر اپنے کردار کے آئینے پر بھی ڈال لینا
یقین جانو بہت بڑے گناہ سے بچ جاؤ گے

تم دوسروں کو عزت دو ، الله پاک تمہیں بھی عزت سے نوازے گا ان شاء الله ! 
الله ہم سب کو نیک ہدایت دے..آمین

.‎

QUOTATION BY HAZRAT ALI (R.A)

Photo: ‎لا اله الا الله محمد رسول الله
Truely! Peace Of Heart Is Only In The Remembrance Of Allah.‎

شاگرد ہو تو ایسا!



مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے ایتھنز میں اکیڈمی کھولی جہاں وہ امراوشرفا کے لڑکوں کو تعلیم دینے لگا۔ جب اکیڈمی میں خاصی چہل پہل ہوگئی، تو اس نے روزمرہ کام کاج کی خاطر ایک اٹھارہ سالہ لڑکا بطور خدمت گار رکھ لیا۔ وہ لڑکا چائے پانی لاتا اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔ یہ اکیڈمی صرف امرا کے لیے مخصوص تھی۔ چنانچہ لڑکا اپنا کام کرچکتا، تو باہر چلا جاتا۔ اُدھر جماعت کے دروازے بند کیے جاتے اور افلاطون پھر طلبہ کو تعلیم دینے لگتا۔ وہ لڑکا بھی د
روازے کے قریب بیٹھا اندر ہونے والی باتیں سنتا رہتا۔ 
دو ماہ بعد افلاطون کی جماعت کانصاب ختم ہوگیا۔ اب حسب روایت ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں شہر کے سبھی عالم فاضل شرکت کرتے تھے۔ طلبہ کے والدین بھی شریک ہوتے ۔تقریب میں جماعت کے ہرطالب علم کا امتحان بھی ہوتا، وہ یوں کہ ہرایک کو کسی موضوع پر سیرحاصل گفتگو کرنا پڑتی۔ چنانچہ اس تقریب کا موضوع ’’علم کی اہمیت ‘‘ تھا۔ افلاطون کی جماعت سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم ڈائس پہ آتے، موضوع کے متعلق کچھ جملے کہتے اور پھر لوٹ جاتے۔ کوئی طالب علم بھی ’’علم کی اہمیت‘‘ پر متاثر کن تقریر نہ کرسکا۔ یہ دیکھ کر افلاطون بڑا پریشان ہوا۔ 


اچانک خدمت گار لڑکا اس کے پاس پہنچا اور گویا ہوا ’’کیا میں تقریر کرسکتا ہوں؟‘‘ افلاطون نے حیرت اور بے پروائی کی ملی جلی کیفیت میں اسے دیکھا اور پھر لڑکے کی درخواست مسترد کردی۔ اس نے کہا ’’میں نے تمہیں درس نہیں دیا، پھرتم کیسے اظہار خیال کرسکتے ہو؟‘‘ لڑکے نے تب اسے بتایا کہ وہ پچھلے دو ماہ سے دروازے پر بیٹھا اس کا درس سن رہا ہے۔ 
تب تک افلاطون اپنے تمام شاگردوں سے مایوس ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے نوجوان کوحاضرین کے سامنے پیش کیا 

لڑکے کو تقریر کرنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا بولنا شروع ہوا، تو آدھے گھنٹے تک علم کی فضلیت پر بولتا رہا۔ اس کی قوت گویائی اور بے پناہ علم دیکھ کر سارا مجمع دنگ رہ گیا۔ تقریر بڑی مدلل اور متاثر کن تھی۔ جب لڑکا تقریر مکمل کرچکا، تو افلاطون پھر ڈائس پر آیا اور حاضرین کو مخاطب کرکے بولا ’’آپ جان چکے کہ میں نے پوری محنت سے طلبہ کو تعلیم دی اور دوران تدریس کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔ میرے شاگردوں ہی میں سیکھنے کے جوہر کی کمی تھی، اسی لیے وہ مجھ سے علم پانہ سکے ۔ جبکہ یہ (لڑکا) علم کی چاہ رکھتا تھا، لہٰذا وہ سب کچھ پانے میں کامیاب رہا جو میں اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہتا تھا۔‘‘ 

آج دنیا اس "لڑکے "کو "ارسطو "کے نام سے جانتی ہے جس نے فلسفے سے لے کر سائنس تک میں
اپنے نظریات سے دیرپا اثرات چھوڑے۔ اس کا شمار نوع انسانی کے عظیم فلسفیوں اور دانش وروں میں ہوتا ہے۔ 

Photo: ‎شاگرد ہو تو ایسا!
---------------------
مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے ایتھنز میں اکیڈمی کھولی جہاں وہ امراوشرفا کے لڑکوں کو تعلیم دینے لگا۔ جب اکیڈمی میں خاصی چہل پہل ہوگئی، تو اس نے روزمرہ کام کاج کی خاطر ایک اٹھارہ سالہ لڑکا بطور خدمت گار رکھ لیا۔ وہ لڑکا چائے پانی لاتا اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔ یہ اکیڈمی صرف امرا کے لیے مخصوص تھی۔ چنانچہ لڑکا اپنا کام کرچکتا، تو باہر چلا جاتا۔ اُدھر جماعت کے دروازے بند کیے جاتے اور افلاطون پھر طلبہ کو تعلیم دینے لگتا۔ وہ لڑکا بھی دروازے کے قریب بیٹھا اندر ہونے والی باتیں سنتا رہتا۔ 
دو ماہ بعد افلاطون کی جماعت کانصاب ختم ہوگیا۔ اب حسب روایت ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں شہر کے سبھی عالم فاضل شرکت کرتے تھے۔ طلبہ کے والدین بھی شریک ہوتے ۔تقریب میں جماعت کے ہرطالب علم کا امتحان بھی ہوتا، وہ یوں کہ ہرایک کو کسی موضوع پر سیرحاصل گفتگو کرنا پڑتی۔ چنانچہ اس تقریب کا موضوع ’’علم کی اہمیت ‘‘ تھا۔ افلاطون کی جماعت سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم ڈائس پہ آتے، موضوع کے متعلق کچھ جملے کہتے اور پھر لوٹ جاتے۔ کوئی طالب علم بھی ’’علم کی اہمیت‘‘ پر متاثر کن تقریر نہ کرسکا۔ یہ دیکھ کر افلاطون بڑا پریشان ہوا۔ 

اچانک خدمت گار لڑکا اس کے پاس پہنچا اور گویا ہوا ’’کیا میں تقریر کرسکتا ہوں؟‘‘ افلاطون نے حیرت اور بے پروائی کی ملی جلی کیفیت میں اسے دیکھا اور پھر لڑکے کی درخواست مسترد کردی۔ اس نے کہا ’’میں نے تمہیں درس نہیں دیا، پھرتم کیسے اظہار خیال کرسکتے ہو؟‘‘ لڑکے نے تب اسے بتایا کہ وہ پچھلے دو ماہ سے دروازے پر بیٹھا اس کا درس سن رہا ہے۔ 
تب تک افلاطون اپنے تمام شاگردوں سے مایوس ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے نوجوان کوحاضرین کے سامنے پیش کیا 

لڑکے کو تقریر کرنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا بولنا شروع ہوا، تو آدھے گھنٹے تک علم کی فضلیت پر بولتا رہا۔ اس کی قوت گویائی اور بے پناہ علم دیکھ کر سارا مجمع دنگ رہ گیا۔ تقریر بڑی مدلل اور متاثر کن تھی۔ جب لڑکا تقریر مکمل کرچکا، تو افلاطون پھر ڈائس پر آیا اور حاضرین کو مخاطب کرکے بولا ’’آپ جان چکے کہ میں نے پوری محنت سے طلبہ کو تعلیم دی اور دوران تدریس کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔ میرے شاگردوں ہی میں سیکھنے کے جوہر کی کمی تھی، اسی لیے وہ مجھ سے علم پانہ سکے ۔ جبکہ یہ (لڑکا) علم کی چاہ رکھتا تھا، لہٰذا وہ سب کچھ پانے میں کامیاب رہا جو میں اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہتا تھا۔‘‘ 

آج دنیا اس "لڑکے "کو "ارسطو "کے نام سے جانتی ہے جس نے فلسفے سے لے کر سائنس تک میں
 اپنے نظریات سے دیرپا اثرات چھوڑے۔ اس کا شمار نوع انسانی کے عظیم فلسفیوں اور دانش وروں میں ہوتا ہے۔ 

.‎

SURAH IKHLAS

WHAT DOES ISLAM MEANS

Tuesday 20 November 2012

THE MARRIAGE


We had our first argument last night, and he said a lot of cruel things That really hurt me. I know he is sorry and didn't mean the things he said, Because he sent me flowers today. I got flowers today.. It wasn't our Anniversary or any other special day.

Last night he threw me into a wall and started to choke me. It seemed like A nightmare, I couldn't believe it was real.
 I woke up this morning sore and Bruised all over. I know he must be sorry cause he sent me flowers today. I got flowers today, and it wasn't mother's day or any other special day.

Last night, he beat me up again, it was much worse than all the other Times. If I leave him, what will I do? How will I take care of my kids? What About money? I'm afraid of him and scared to leave. But I know he must be sorry Because he sent me flowers today...

I got flowers today. Today was a very special day. It was the day of my Funeral. Last night, he finally killed me. He beat me to death. If only I Had gathered enough courage to leave him, I would not have gotten flowers Today........

Please share this on,to your brothers and sisters. It will open the eyes of brothers who are abusing their wives and it will grant courage to sisters who are experiencing abuse so that they may speak up and reach out for help. 

May Allαh save us, aameen.

THE PALACE


Here is another story about Sultan Mahmud of Afghanistan and his servant, Ayyaz. Sultan Mahmud would respect Ayyaz for his wisdom even though he was a servant. This made the ministers and other people of high positions very jealous of Ayyaz. They talked wrong against him and started a rumour that Ayyaz was nothing but a fool. 

The king came to know of this and he decided to
 prove to them who were the real fools. An announcement was made to all the people that the King will distribute his belongings on a particular date. Whatever a person touch will become his on that day. When the day came, many people appeared by the king's palace.

The king made his announcement again that a person can have whatever he touches. The door was opened and everyone ran to touch whatever was of value in the palace. Some touched jewelery of gold while others touched fancy furnitures, etc. But Ayyaz was just standing by the king and was not touching anything.

People thought that Ayyaz was crazy as he wasn't taking advantage of this great event. Now, Ayyaz asked the king if the announcement he made was certain. The king said "Yes, whatever you touch is yours." Immediately, Ayyaz placed his right hand on the king's head and the left hand on his shoulder.

He then shouted, "Listen everyone. I was waiting for this moment to aquire the most expensive thing. All of you took whatever the king possessed, but you forgot about the owner of all these, which is the king himself. I hereby declare that my hands are on the king, so the king is mine.

You cannot remove one thing from this palace because I am the owner of all these now." After hearing this from Ayyaz, everyone realized that actually, Ayyaz is the only smart one and everyone else was in error.

Today people are only running after the creations but, very few are running towards the Creator Himself. If Allah, the King of all kings, becomes our Friend then what else do we need?


THE AIRPORT


Let's pretend. You're on your way to the airport. Your vacation has just started. You've been working so hard and this is just what you need. You work your way through airport security and answer the usual stupid questions. No problems elhamdulilah. You grab a coffee and arrive at your gate and what do you see? A guy is building a house rite there at the gate. He has his lum
ber and everything. Now what is your 1st thought? How the Hell did he get that wood through security not to mention the hammer. The 2nd thought? Why is he building his house here? Well, let's stop pretending. This life is nothing more than an airport. There are 2 destinations and you are at the gate waiting to go to one of them. Don't start building a perminent home here because you won't be here long. Building a perminent home here is just as insane as the guy with the lumber in our pretend story. Build your home in Paradise with belief in ALLAH along with good deeds. Afterall, your flight may be next. Take care and stay blessed. Enjoy your flight.



HAR TAKLEEF SE MAHFOOZ


HADEES


Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...