Monday, 28 May 2012

Ghibat


اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو، یقینا بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، جبکہ وہ مردہ ہو، سو تم اسے نا پسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے ۔ 
___________________________

O believers, eschew much suspicion; some suspicion is a sin. And do not spy, neither backbite one another; would any of you like to eat the flesh of his brother dead? You would abominate it. And fear you God; assuredly God turns, and He is All-compassionate.
(Surat Al-Hujuraat, Medinan, verse 12)

وہی رب ہے

وہی رب ہے جو
انسان کو صبح نیند سے جگاتا ہے 
اس انسان کو 
جو سارا دن اللہ کی نافرمانی کرتا یے

کبھی ناچ
کبھی گانا
کبھی جھوٹ
کبھی سود
کبھی حسد 
کبھی دغا 
کبھی فریب 
کبھی نماز چھوڑتا ہے
کبھی کچھ تو کبھی کچھ

اور جب رات ہوتی ہے تو ایسے سو جاتا ہے کہ 
جیسے سارا دن کوئی نافرمانی کی ہی نہ ہو

پھر زمین پکار اٹھی
پتھر رو پڑے
یا اللہ
یہ کیا ہو رہا ہے ؟
تو انہیں پکڑتا کیوں نہیں؟
تو انہیں مارتا کیوں نہیں؟

اجازت دے کہ ہم ان کو مٹا دیں

اللہ سبحانه و تعالي فرماتا ہے
خاموش رہو
میں اس کی توبہ کا انتظار کر رہا پوں

کبھی تو توبہ کرے گا
کبھی تو توبہ کرے گا ..! 

________________

آج ہم گناہوں اور فتنوں کی جس دلدل میں پھنس چکے ہیں اُس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے توبہ!

اللہ رب العزّت کا ارشادِ پاک ہے:” مومنو! خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو، امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ
تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغ ہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا“(تحریم:٦٦)۔

نبی کریم سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نیک اور متقی نہیں ہو سکتا۔ نبی معصوم ہوتے ہیں ان سے گناہ سرزد نہیں ہوسکتا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “میں اللہ تعالیٰ سے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں”۔ 

اب ہم ذرا اپنی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ ہمیں توبہ و استغفار کی کتنی ضرورت ہے !
اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کی ہر طرح سے کوشش کرتے رہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچے دل سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور ایسی توبہ کرنے کی توفیق دے جس کے بعد ہم سے کبھی کوئی گناہ نہ ہو ...... آمین 

الٰھی آمین

جاگو مسلمانو اور اپنے اصل دشمن کو پہچانو ! !

سابق برطانوی جاسوس ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں اسلامی دنیا میں فرقہ ورانہ فساد کرانے کے انکشافات کر رهے هیں یہ کتاب جاسوس ہمفرے کی ڈائری ہے جس میں اس نے نہ صرف اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ برطانیہ کے وزارت نو آبادیات کے منشور، مقاصد اور منصوبوں کو بھی بے نقاب کیا ہے اس کتاب میں ہمفرے جاسوس بتا رہا ہے کہ برطانیہ نے کس طرح مسلمانوں کو تقسیم کیا اور ان میں مذہبی اختلافات بوئے اور انہیں آپس میں ہی لڑا دیا تاکہ وہ بریلوی اور دیوبندی بن کرلڑتے رہیں۔

سنڈے ٹائمز میں پانچ مئی 2002 کو خبرچھپی تھی کہ کئی درجن برطانوی مشنریوں کو خفیہ سرگرمیوں کے لئے مختلف حیلے بہانے سے مسلمان ممالک میں بھجوایا جارہا ہے۔ ان کو وہاں مختلف نوکریاں لے کردی جارہی ہیں تا کہ وہ ان کی آڑ میں خفیہ کام کرسکیں“ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو مسلمان ممالک میں بھجوانے سے پہلے اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگوں میں گھل مل سکیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی خفیہ ایجنٹ نے وطن واپس پہنچ کر انکشاف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک مسجد کا امام رہا۔ آپ کو وہ پرانا واقعہ یاد ہوگا کہ گوجرانوالہ کے علاقے سے ” را “ (RAW) کا ایک ہندو ایجنٹ پکڑا گیا تھا جو کئی سا ل سے امام مسجد کے فرائض سرانجا م دے رہا تھا اور لوگوں کو مذہبی فرقہ بندی کے ذریعے بھڑکاتا تھا۔ مختصر یہ کہ مسلمان ساہ لوح لوگ ہیں اور آسانی سے فرقہ بندی کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے غیرممالک کے خفیہ ایجنٹ داخل ہو کر مسلمانوں میں منافرت پھیلاتے اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔

جاسوس ہمفرے کو انگلستان کی وزارت برائے نوآبادیاتی علاقوں نے 1710 میں مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت میں جاسوسی پر مامور کیا ہمفرے کے اپنے الفاظ کے مطابق ”مجھے ان علاقوں میں وہ راہیں تلاش کرنی تھیں جن سے مسلمانوں کو درہم برہم کر کے مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کیا جا سکے ۔ میرے ساتھ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے نو اور بہترین تجربہ کار جاسوس اسلامی ممالک میں اس کام پر مامور تھے اور بڑی تندہی سے انگریز سامراج کے اثر و نفوذ اور استحکام کیلئے سرگرم عمل تھے۔ ان وفود کو وافر سرمایہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ حضرات مرتب شدہ نقشوں اور تازہ اطلاعات سے بہرہ مند تھے۔ ان کو امراء، وزراء، حکومتی اعلیٰ عہدیداروں، علماء اور روساء کے ناموں کی مکمل فہرست دی گئی تھی۔

میرے ذمے دو اہم کام تھے اول ترکی زبانی پر عبور حاصل کرنا اور اس کے بعد عربی زبان، قرآن اس کی تفسیر اور پھر فارسی سیکھنا اور مہارت کے اعتبار سے اس پر پوری دسترس حاصل کرنا تاکہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں کوئی فرق محسوس نہ ہو ۔

ہمفرے استنبول (قسطنطنیہ) پہنچا، بحری جہاز سے اترنے سے پہلے اپنا نام محمد رکھا اور شہر کی جامع مسجد میں داخل ہو گیا ۔ پھر اس نے شہر کے ایک نیک اور بزرگ عالم احمد آفندی سے تعلقات استوار کئے ۔ ”احمد آفندی دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی کا مطمع نظر بنائے ہوئے تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ میں غریب الوطن اور یتیم ہوں اور عثمانی سلطنت کیلئے کام کر رہا ہوں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشین ہے تو وہ مجھ پر مہربان ہو گیا۔“ شیخ سے ہمفرے نے جس طرح عربی، قرآن، تفسیر اور تجدید پڑھی، اس میں دو برس لگ گئے کس طرح ہمفرے راتیں مسجد میں سو کر گزارتا تھا شیخ کو جب معلوم ہوا ہمفرے غیر شادی شدہ ہے تو اس نے اسے شادی کا مشورہ دیا اور اس مقصد کے لئے اپنی ہی بیٹی کا انتخاب کیا لیکن ہمفرے نے نہایت مودبانہ انداز سے انکار کر لیا

استنبول میں دو سال قیام کے دوران ہمفرے ہر ماہ رپورٹ بھجواتا رہا۔ پھر اس کی وزارت نے اسے مزید تربیت لے کر کسی اور مسلم ملک میں فرائض کی سرانجام دہی کے لئے بھیج دیا جائے۔ لندن میں اس کی وزارت نے ہمفرے کو کہا ” آئندہ کے لئے تمہیں دو اہم باتوں کا خیال رکھنا ہے۔

(1) مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں میں پھوٹ ڈالنے میں مددگار ثابت ہوں

(2) کمزوریاں جان لینے کے بعد تمہارا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔


ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں لکھا ہے کہ اسے نو آبادیاتی وزارت کی طرف سے حکم ملا کہ وطن کی خدمت کے لئے ہر قسم کا کام کر گزرو۔ مطلب یہ کہ جاسوسی کی دنیا میں اخلاقیات نامی کوئی شے نہیں ہوتی اور اس میدان میں مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جائز سمجھے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے برطانوی انٹیلی جنس کو کس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب کیا، اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔

لندن میں جب ہمفرے اپنی وزارت کے سیکرٹری سے ملا تو سیکرٹری نے میری رپورٹ کو بہت سراہا تاہم عثمانی حکومت (سلطنت عثمانیہ ترکی) کے زوال کے سلسلے میں میری رپورٹ اعلیٰ درجے کی نہیں تھی ۔ سیکرٹری نے کانفرنس کے اختتام پر میری کمزوری کا ذکر کیا اور کہا کہ آئندہ دو باتوں کا خیال رکھنا اول مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کامیابی فراہم کریں۔ دوم تمہارادوسرا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔

چھ ماہ بعد ہمفرے بصرہ پہنچا۔ ہمفرے لکھتاہے: ”بصرہ میں عیسائیوں کی تعداد کم تھی۔ زندگی میں پہلا موقع تھاکہ میں اہل تشیع اور ایرانیوں سے مل رہا تھا… شیعہ سنی اختلافات کا ناقابل فہم پہلو ان کا مسلسل جاری رہنا ہے۔ اگرمسلمان حقیقتاً عقل سے کام لیتے تو تاریخ اور گزشتہ زمانے کی بجائے آج کے بارے میں سوچتے۔ ایک دفعہ میں نے شیعہ سنی اختلافات کے موضوع کو نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ” مسلمان اگر زندگی کاصحیح مفہوم سمجھتے تو اختلافات کو چھوڑ کر وحدت و اتحاد کی بات کرتے“ اچانک صدر کانفرنس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ”تمہارا کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے نہ کہ اتحاد کی دعوت دینا“

”عراق جانے سے پہلے سیکرٹری نے اپنی ایک نشست میں مجھ سے کہا

” ہمفرے ! تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان کے لئے ایک فطری امر ہیں۔ جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا اور ہابیل اورقابیل پیدا ہوئے اختلاف نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰ کی بازگشت تک اسی طرح جاری رہنا ہے۔ ہم انسانی اختلافات کو پانچ موضوعات پرتقسیم کرتے ہیں۔ (1) نسلی اختلافات (2) قبائلی اختلافا ت (3) ارضی اختلافات (4) قومی اختلافات (5) مذہبی ختلافات۔

اس سفر میں تمہارا اہم ترین مشن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں انہیں لندن پہنچانا ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں شیعہ سنی فساد برپا کرسکو تو گویا تم نے حکومت ِ برطانیہ کی عظیم خدمت کی۔ جب تک ہم نوآبادیاتی علاقوں (کالونیز) میں تفرقہ او ر اختلافات کی آگ کو ہوا نہیں دیں گے ہم عثمانی سلطنت کو شکست نہیں دے سکتے۔ اتنے بڑے علاقے پر انگریزوں کی مختصر سی قوم سوائے اس ہتھکنڈے کے اور کس طرح چھا سکتی ہے؟“

چند رو ز قبل ایک برطانوی پاکستانی بزرگ نے باتوں باتوں میں انکشاف کیا کہ ایک امریکی سے ان کی دوستی ہوگئی ۔ وہ اس کی پاکستان اور خاص طور پر فاٹا کے علاقے کی معلومات سے بے حد متاثر ہوئے۔ پھر راز کھلا کہ وہ صاحب اسلامی تعلیمات کے ماہر تھے اور وزیرستان کے کسی قصبے یا دیہات میں کئی برس تک امامت فرماتے اور معلومات اکٹھی کرکے سی آئی اے کو بھجواتے رہے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان میں امریکی، برطانوی، ہندوستانی اورکئی ممالک کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔

ہمفرے کے مطابق وزیر نے یہ حکم دیا کہ مجھے دو اہم رازوں سے آشنا کیا جائے ۔ جن سے صرف چند ایک ممبران آگاہ ہیں۔ مجھے وزارت کے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں لوگ گول میز کے اردگرد بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کیونکہ اجلاس میں شریک آدمیوں کی کیفیت کچھ یوں تھی
(1) ہوبہو سلطنت عثمانی کا جلالت، ترکی اور انگریزی پر مہارت
(2) لباس، انداز قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام کی سو فیصد نقل
(3) دربار ایران کے شیعہ عالم کی مکمل شبیہ
(4) نجف میں شیعوں کے مرجع تقلید کا بے مثل سراپا۔ آخری تین حضرات فارسی کے ماہر تھے۔ پانچوں سوانگی اپنے فرائض اور مقام و منصب سے بخوبی آشنا تھے۔ ہمفرے کو ان کا امتحان لینے کے لئے کہا گیا۔ اس نے کئی سوالات کئے۔ جوابات نہایت ماہرانہ انداز سے خالصتاً مسلمان عالموں کے لہجے میں دیئے گئے جن کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔

اس کے بعد ہمفرے وزارت کے حکم کے تحت کربلا اور نجف چلا گیا ’ایک بربری سوداگر کے بھیس میں نجف پہنچا اور وہاں کے شیعہ علما سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے ان کی درسی مجلسوں اور مباحثوں میں شامل ہونے لگا۔ یہاں ہمفرے نے ان علاقوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بغداد سے ہمفرے نے عراق کے بارے میں سو صفحات پر مشتمل رپورٹ بغداد میں وزارت کے نمائندے کے ذریعے بھجوائی۔ اپنے شکار سے رابطہ کیا، زکوٰة کے نام پر اسے رقم فراہم کی اور اسے ایران بھجوا دیا۔


وزارت کی جانب سے اسے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی گئی جو مسلمانوں کی پسماندگی پر سیرحاصل بحث کرتی تھی۔ چند ایک بڑی کمزوریوں کا ذکر یوں تھا
(1) شیعہ سنی اختلافات
(2) حکمرانوں کے ساتھ قوموں کے اختلافات
(3) قبائلی اختلافات
(4) علماء اور حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیاں
(5) جہالت اور نادانی کی فراوانی
(6) فکری جمود اور تعصب اور محنت سے جی چرانا
(7) مادی زندگی سے بے توجہی اور جنت کے خواب ( حکمرانوں کے مظالم
(9)امن وامان، سڑکوں، علاج معالجے وغیرہ کا فقدان
(10) حکومتی دفاتر میں بد انتظامی، قاعدے قانون کا فقدان
(11) اسلحہ دفاعی سامان کی کمی
(12) عورتوں کی تحقیر
(13) گندگی کے انبار اشیائے فروخت کے بے ہنگم ڈھیر۔

مسلمانوں کے ان کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کا طرز زندگی شریعت اور اسلامی قوانین سے رتی برابر بھی میل نہیں کھاتا۔ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے بے خبر رکھا جائے وغیرہ وغیرہ

ذرا غور کیجئے کہ جن کمزوریوں اور تلخ حقائق کا ذکر تین صدیاں قبل کیا گیا تھا کیا وہ آج بھی بدستور موجود نہیں ؟ ان تین صدیوں میں دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئی لیکن مسلمان اسی طرح مذہبی نفرتوں، تشدد، جہالت، غربت ، پسماندگی وغیرہ کے شکار ہیں۔

جس طرح اس دور میں برطانوی استعمار نے مڈل ایسٹ میں مذہبی فرقہ بندی کی حکمت عملی بنائی اسی طرح انگریزوں نے 1857 کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی اپنی آزمودہ حکمت عملی پر عمل کیا اور ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کیا گیا ہے اور اگر کوئی شخص مذہبی تفرقات کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرے تو سمجھ لیں کہ یا تو وہ کسی استعماری قوت کا ایجنٹ ہے یا پھر مسلمانوں کا دشمن!!

ہمفرے ٹھیک کہتا ہے کہ جس روز مسلمانوں نے قرآن و شریعت کی روح کو اپنا لیا وہ دوبارہ دنیا پر چھا جائیں گے۔

انگریزی میں اصل کتاب انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ اسے مندرجہ ذیل لنک پر پڑھا جا سکتا ہے:

at Al Hamra, Jeddah

عورتوں کا فتنہ


ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، خارجہ بن مصعب، زید بن اسلم، عطاء بن یسار،

حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

ہر صبح دو فرشتے پکارتے ہیں

عورتیں مردوں کیلئے ہلاکت و بربادی ہیں

عورتیں مردوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہیں۔

------------------------------

It was narrated from Abu Sa'eed (R.A) that 

the Messenger of Allah P.B.U.H said: 

"No morning comes but two angels call out: 

'Woe to men from women, 

and to women from men.": 

(Da'if)
-------------------------------

سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 879

حدیث مرفوع مکررات 
1

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...