Behind this blog, there's a team of devoted writers who write after complete research and fair analysis. Our goal is to make Pakistan a better society and make positive changes in our country. Each and every writer is responsible for his/her own opinions and there's no responsibility of other team members for his/her work. If you wish to write for us please feel free to contact us through "Contact US" page.
Sunday, 15 April 2012
یہ بات ہر مسلمان کے لئے جاننا بہت ضروری ہے !!!
میری آپ سب سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس پوسٹ کو ضرور پڑھیں اور بہت غور سے پڑھ کر آگے دوسروں تک بھی ضرور پہنچائیں .یہ بحیثیت ایک مسلمان آپ کا فرض بھی ہے ! اس پوسٹ میں "امہات المؤمنين" كے بارے میں غیر مسلموں کے سوال کا جواب تفصیل سے واضح الفاظ میں دیا گیا ہے اور اگر کبھی آپ سے کوئی یہ سوال پوچھ بیٹھے تو آپ کو اس کا
جواب پتا ہو اور آپ ان لوگوں کو منہ توڑ جواب دے سکیں !!!
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کی کثرت میں کیا حکمت تھی؟
_________________________________________________________
كيا جواب ديا كرتے ہيں آپ اس سوال كا؟ فرض كرتے ہيں ايک شخص بری نيت سے آپ كے پاس آتا ہے، تاكہ يہ سوال اس طرح كرے كہ يا تو آپ كا ايمان شكستہ ہو كر رہ جائے يا پھر آپ سے جواب نہ بن پڑے اور وہ آپ كو شرمسار كر جائے!!!
تو كيا پھر آپ جواب دينا جانتے ہيں؟ سب سے پہلے: كيا آپ كے پاس دفاع كی كوئی صلاحيت ہے كہ وہ كيا حالات تھے جن ميں سركار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم كو متعدد شادياں كرنا پڑيں؟
ليجيئے يہ ہے جواب۔۔۔
_________________
در حقيقت يہ جواب فاضل استاد جناب عمرو خالد كے ايک ليكچر پر مبنی ہے جو انہوں نے
“امہات المؤمنين” پر ديا تھا، آپ كی معلومات كيلئے تلخيص و ترجمہ حاضر خدمت ہے:
سب سے پہلے آپ سے ہی ايک سوال۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجات مباركہ كی كل تعداد كيا تھی؟
زوجات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کل تعداد 12 ہے۔
جب حضور اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كا وصال ہوا تو ان ميں سے 10 حيات تھیں۔ حضرت خديجہ اور حضرت زينب بنت خزيمہ رضی اللہ عنہما سركار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم كی حياتِ مباركہ ميں ہی انتقال فرما چكی تھیں۔
________________
آپ سے ہی ميرا دوسرا سوال: كيا آپ كو اپنی امہات ۔۔۔ امہات المؤمنين۔۔۔ كے اسماءِ مباركہ آتے ہيں؟
اللہ تبارک و تعالی آپ کی اور ميری مغفرت فرمائے، ليجيئے، يہ ہيں اسماء مباركہ:
خديجہ بنت خويلد رضی اللہ عنہا
سوۃ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
عائشہ بنت ابي بكر رضی اللہ عنہا
حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا
زينب بنت خزيمہ رضی اللہ عنہا
أم سلمہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا
زينب بنت جحش رضی اللہ عنہا
جويريہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
صفيہ بنت حيي بن أخطب رضی اللہ عنہا
أم حبيبہ رملہ بنت ابي سفيان رضی اللہ عنہا
ماريا بنت شمعون المصريہ رضی اللہ عنہا
ميمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
______________
اسماء مباركہ جان لينے كے بعد آپ سے يہ پوچھتے ہيں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی كے وقت ان ميں سے کتنی كنواری تھیں اور کتنی پہلے سے شادی شدہ؟
شادی كے وقت صرف ايک كنواری تھیں اور وہ ہيں سيدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، جبكہ باقی سب ہی ثيبات تھیں۔
______________
كيا سب کی سب عرب تھیں؟
جی ہاں، سب كی سب عرب تھيں ما سوائے سيدہ ماريا رضی اللہ عنہا کے، وہ جزيرۃ العرب كے باہر سے تھيں اور ان كا تعلق مصر كی سر زمين سے تھا۔
______________
كيا وہ سب کی سب مسلمان تھیں؟
جی ہاں، سب كی سب مسلمان تھيں ما سوائے دو كے: سيدہ صفيہ يہوديہ تھيں اور سيدۃ ماريا مسيحيہ تھيں، رضي اللہ عنہن جميعا
______________
اور اب۔۔۔۔۔ دوسرے سوال كا جواب ديتے ہيں: كيا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام شاديوں كا سبب شہوت تھی؟
اگر حبيبنا صلی اللہ علیہ وسلم كی شادی شدہ زندگی پر ايک نظر ڈالی جائے تو ہم يہ جان ليتے ہيں كہ شہوت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی زندگی سے ختم ہی ہو چكی تھی، ليجئے اس بار عقلی دليل ديتا ہوں:
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع سے ليكر 25 سال کی عمر تک كنوارے رہے۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 25 سال سے ليكر 50 سال كی عمر تک (يہ بات ذہن ميں ركھيئے كہ یہی عمر حقیقی جوانی کی عمر ہوتی ہے) ايک ايسی عورت سے شادی كيئے ركھی جو كہ نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے 15 برس بڑی تھیں بلكہ اس سے قبل دو اور اشخاص كے نہ صرف نكاح ميں رہ چکی تھیں بلکہ ان سے اولاديں بھی تھیں۔
3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 50 سال کی عمر سے 52 سال کی عمر تک بغير شادی كے (بغير بيوی كے) حالت افسوس ميں رہے اپنی پہلی بيوی كی وفات كی وجہ سے۔
4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 52 سال كی عمر سے ليكر 60 سال كی عمر كے درميانے عرصے ميں متعدد شادياں كيں (جنكے سياسی، دينی اور معاشرتی وجوہات ہيں، انكی تفصيل ميں بعد ميں بتاؤنگا)۔
اچھا تو پھر۔۔۔۔ كيا يہ بات معقول لگتی ہے كہ 52 سال كی عمر كے بعد ہی ساری شہوت کھل كر سامنے آجاتی ہے؟ اور كيا يہ بات بھی معقول ہے كہ شاديوں كو پسند كرنے والا شخص، عين شباب ميں، ايک ایسی ثيب عورت سے شادی كرے جو اس سے پہلے دو شادياں كر چكی ہو اور پھر اس عورت كے ساتھ بغير کوئی دوسری شادی كيئے 25 سال بھی گزارے۔ اور پھر اس عورت كی وفات كے بعد دو سال تک بغير شادی كيئے ركا رہے صرف اس عورت كی تكريم اور اس كے ساتھ وفاء كے طور۔۔۔
سيدہ خديجہ رضی اللہ عنہا کی وفات كے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شادی فرمائی وہ سيدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے تھی، اور بوقت شادی سيدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی عمر اسی (80) سال تھی، يہ زمانہ اسلام ميں ہونے والی پہلی بيوہ تھيں۔ ان سے سركارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم كی شادی كا مقصد نہ صرف ان كی عزت افزائی كرنا تھی بلكہ ان جيسی اور بيوہ خواتين كو معاشرے ميں ايک با عزت مقام عطا فرمانا تھا جس كی ابتداء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے آپ سے فرمائی۔ چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دوسروں كو ايسا كرنے كا حكم بھی فرما سكتے تھے، مگر نہيں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود يہ عمل فرما كر آئندہ بنی نوع آدم كيلئے ايک مثال قائم فرما دی۔
______________
اچھا ۔ يہ سب كچھ كہنے كے بعد ہم يہ نتيجہ اخذ كر سكتے ہيں كہ: حضور اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طريقوں سے شادياں فرمائیں:
1. محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحيثيت ايک مرد (صرف سيدہ خديجہ سے شادی کی)
2. محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحيثيت ايک رسول (باقی ساری خواتين سے شادياں فرمائیں)
______________
اچھا اب ایک اور سوال پوچھتے ہیں: كيا محمد رسول اللہ اكيلے ہی ايسے نبی ہيں جنہوں نے متعدد شادياں كيں يا دوسرے نبيوں نے بھی ايسا كيا؟
جی، اسكا جواب ہاں ميں ہے۔ کئی رسولوں اور نبيوں نے (مثال كے طور پر) سيدنا ابراہيم ، سيدنا داؤود اور سيدنا سليمان صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین نے ايسا كيا۔ اور يہ سب كچھ آسمانی كتابوں ميں لكھا ہوا ہے،
______________________________________________________________
تو پھر بات كيا ہے كہ مغربی ممالک اسی بات كو ہی بنياد بنا كر ہم پر حملے كرتے ہيں؟ جبكہ حقيقت كا وہ نہ صرف اعتراف كرتے ہيں بلكہ يہ سب كچھ ان كے پاس لکھا ہوا بھی ہے۔
آئيے اب ان سیاسی ، اجتماعی اور دینی وجوہات پر بات كرتے ہيں جن کی بناء پر سركارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم كو متعدد شادياں كرنا پڑيں:
___________________________________________
سب سے پہلی وجہ:
-------------------------
تاكہ اسلام نہايت ہی اہتمام سے اپنی مكمل خصوصيات اور تفاصيل كے ساتھ (مثال كے طور پر نماز اپنی پوری حركات و سكنات كے ساتھ ) نسل در نسل چلتا جائے۔ تو اس كيلئے تو بہت ہی ضروری تھا كہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے گھر ميں داخل ہوں اور وہاں سے يہ ساری تفاصيل ملاحظہ كريں اور امت كی تعليم كيلئے عام كريں۔ اس مقصد كيلئے اللہ سبحانہ و تعالی نے سيدہ عائشہ سے رسول اكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی لكھ دی۔ ان كی كم عمری کی بنا پر ان ميں سيكھنے کی صلاحيتيں زيادہ تھیں (عربی مقولہ ہے: العلم في الصغر كالنقش علی الحجر۔ بچپن ميں سيكھا ہوا علم پتھر پر نقش كی مانند ہوتا ہے)، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے وصال كے بعد بياليس (42) برس زندہ رہيں اور دين کی ترويج و اشاعت كا كام كيا۔ اور آپ رضی اللہ عنہا لوگوں ميں سب سے زيادہ فرائض و نوافل كا علم ركھنے والی تھیں۔ اور زوجات الرسول صلی اللہ ولیہ وسلم سے اجمالی طور پر روايت كردہ احاديث كی تعداد تين ہزار (3000) ہے۔ اور جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی كم عمری کی شادی سے شبہات پيدا كئے جاتے ہيں يہ تو عرب كے صحرا كے دستور تھے كہ ايک تو بچياں بھی ادھر جلدی بلوغت كو پونہچا كرتی تھیں اور دوسرا كم سنی ميں شادياں بھی کر دی جاتی تھيں، اور پھر يہ دستور اس زمانے ميں صرف عربوں ميں ہی نہيں تھا بلكہ روم و فارس ميں بھی يہی ہوتا تھا۔
دوسری وجہ:
---------------
تاكہ صحابہ كرام كو ايک ايسے رشتے باندھ ديا جائے جو امت كو مضبوطی سے جكڑے ركھے۔ يہی وجہ تھی كہ سركار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابو بكر كی بيٹی سے شادی فرمائی۔ اور سيدنا عثمان سے اپنی دو بيٹيوں كی شادی فرمائی۔ اور اپنی تيسری بيٹی كی شادی سيدنا علی سے فرمائی۔ رضي اللہ عنہم جميعا و أرضاھم
تيسری وجہ:
---------------
بيواؤں كے ساتھ رحمت والا سلوک اور برتاؤ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود بيواؤں (سيدہ سودہ ، أم سلمہ اور ام حبيبہ) سے شادياں فرمائيں۔
چوتھی وجہ:
--------------
اسلامی شريعت كا مكمل طور پر نفاذ،!!!
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اپنے آپ پر لاگو كركے دوسروں اور بعد ميں آنے والے مسلمانوں كيلئے اسوہ بناديا۔ چاہے يہ بيواؤں كی عزت و تكريم كا معاملہ تھا يا اسلام ميں داخل ہونے والے ان نو مسلموں كے ساتھ رحمت و شفقت كے اظہار كيلئے تھا مثال كے طور پر حضرت صفيہ رضی اللہ عنہا سے شادی جو كہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ان كے والد كے اسلام ميں داخل ہونے كے بعد فرمائی۔ اور حضرت صفيہ كی عزت و منزلت كو يہوديوں ميں ايک مثال بنا ديا۔
پانچويں وجہ:
---------------
محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ تاكہ دنيا كے ہر خطے اور طول و عرض كے ملكوں تک محبتِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم لوگوں كے دِلوں ميں گھر كر جائے، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدہ ماريا (مصريہ) سے شادی كر كے خطہ عرب سے باہر كے ملكوں كو بھی اپنی محبت ميں پرو كر ركھ ديا، اور اسی طرح سيدہ جويريہ سے شادی كا معاملہ ہے جو كہ ان كے قبيلہ (بنو المصطلق) كے اسلام لانے كا سبب بنا، حالانكہ اس وقت يہ سارا قبيلہ غزوہ بني المصطلق كے بعد مسلمانوں كی قيد ميں تھا جو كہ بذاتِ خود ايک بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔
ميں اميد كرتا ہوں كہ جو كچھ كہا ہے وہ آپ كيلئے نہ صرف يہ كہ دلی اطمئنان كا باعث بنے گا بلكہ ايسے لوگوں كا سامنا كرتے وقت قوت و ثابت قدمی بھی دے گا جو آپ كے ايمان كو متزلزل كرنے يا ہمارے دين اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم كی شان ميں زبان درازی كی جرأت كرنے آپ كے سامنے آتے ہيں۔. —
اے اللہ تیرا لا تعداد شکر ہے کہ تو نے ہمیں اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں پیداکیا ! ♥ :)
یارسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) تیرے چاہنے والوں کی خیر
اللّھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا وَ مَولَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہ وَ صَحْبِہ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ ♥
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُـمّ صَــــــلٌ علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ
كما صَــــــلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ
مَجِيدٌ اللهم بارك علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما
باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
جواب پتا ہو اور آپ ان لوگوں کو منہ توڑ جواب دے سکیں !!!
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کی کثرت میں کیا حکمت تھی؟
_________________________________________________________
كيا جواب ديا كرتے ہيں آپ اس سوال كا؟ فرض كرتے ہيں ايک شخص بری نيت سے آپ كے پاس آتا ہے، تاكہ يہ سوال اس طرح كرے كہ يا تو آپ كا ايمان شكستہ ہو كر رہ جائے يا پھر آپ سے جواب نہ بن پڑے اور وہ آپ كو شرمسار كر جائے!!!
تو كيا پھر آپ جواب دينا جانتے ہيں؟ سب سے پہلے: كيا آپ كے پاس دفاع كی كوئی صلاحيت ہے كہ وہ كيا حالات تھے جن ميں سركار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم كو متعدد شادياں كرنا پڑيں؟
ليجيئے يہ ہے جواب۔۔۔
_________________
در حقيقت يہ جواب فاضل استاد جناب عمرو خالد كے ايک ليكچر پر مبنی ہے جو انہوں نے
“امہات المؤمنين” پر ديا تھا، آپ كی معلومات كيلئے تلخيص و ترجمہ حاضر خدمت ہے:
سب سے پہلے آپ سے ہی ايک سوال۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجات مباركہ كی كل تعداد كيا تھی؟
زوجات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کل تعداد 12 ہے۔
جب حضور اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كا وصال ہوا تو ان ميں سے 10 حيات تھیں۔ حضرت خديجہ اور حضرت زينب بنت خزيمہ رضی اللہ عنہما سركار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم كی حياتِ مباركہ ميں ہی انتقال فرما چكی تھیں۔
________________
آپ سے ہی ميرا دوسرا سوال: كيا آپ كو اپنی امہات ۔۔۔ امہات المؤمنين۔۔۔ كے اسماءِ مباركہ آتے ہيں؟
اللہ تبارک و تعالی آپ کی اور ميری مغفرت فرمائے، ليجيئے، يہ ہيں اسماء مباركہ:
خديجہ بنت خويلد رضی اللہ عنہا
سوۃ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
عائشہ بنت ابي بكر رضی اللہ عنہا
حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا
زينب بنت خزيمہ رضی اللہ عنہا
أم سلمہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا
زينب بنت جحش رضی اللہ عنہا
جويريہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
صفيہ بنت حيي بن أخطب رضی اللہ عنہا
أم حبيبہ رملہ بنت ابي سفيان رضی اللہ عنہا
ماريا بنت شمعون المصريہ رضی اللہ عنہا
ميمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا
______________
اسماء مباركہ جان لينے كے بعد آپ سے يہ پوچھتے ہيں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی كے وقت ان ميں سے کتنی كنواری تھیں اور کتنی پہلے سے شادی شدہ؟
شادی كے وقت صرف ايک كنواری تھیں اور وہ ہيں سيدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، جبكہ باقی سب ہی ثيبات تھیں۔
______________
كيا سب کی سب عرب تھیں؟
جی ہاں، سب كی سب عرب تھيں ما سوائے سيدہ ماريا رضی اللہ عنہا کے، وہ جزيرۃ العرب كے باہر سے تھيں اور ان كا تعلق مصر كی سر زمين سے تھا۔
______________
كيا وہ سب کی سب مسلمان تھیں؟
جی ہاں، سب كی سب مسلمان تھيں ما سوائے دو كے: سيدہ صفيہ يہوديہ تھيں اور سيدۃ ماريا مسيحيہ تھيں، رضي اللہ عنہن جميعا
______________
اور اب۔۔۔۔۔ دوسرے سوال كا جواب ديتے ہيں: كيا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تمام شاديوں كا سبب شہوت تھی؟
اگر حبيبنا صلی اللہ علیہ وسلم كی شادی شدہ زندگی پر ايک نظر ڈالی جائے تو ہم يہ جان ليتے ہيں كہ شہوت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی زندگی سے ختم ہی ہو چكی تھی، ليجئے اس بار عقلی دليل ديتا ہوں:
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع سے ليكر 25 سال کی عمر تک كنوارے رہے۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 25 سال سے ليكر 50 سال كی عمر تک (يہ بات ذہن ميں ركھيئے كہ یہی عمر حقیقی جوانی کی عمر ہوتی ہے) ايک ايسی عورت سے شادی كيئے ركھی جو كہ نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے 15 برس بڑی تھیں بلكہ اس سے قبل دو اور اشخاص كے نہ صرف نكاح ميں رہ چکی تھیں بلکہ ان سے اولاديں بھی تھیں۔
3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 50 سال کی عمر سے 52 سال کی عمر تک بغير شادی كے (بغير بيوی كے) حالت افسوس ميں رہے اپنی پہلی بيوی كی وفات كی وجہ سے۔
4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 52 سال كی عمر سے ليكر 60 سال كی عمر كے درميانے عرصے ميں متعدد شادياں كيں (جنكے سياسی، دينی اور معاشرتی وجوہات ہيں، انكی تفصيل ميں بعد ميں بتاؤنگا)۔
اچھا تو پھر۔۔۔۔ كيا يہ بات معقول لگتی ہے كہ 52 سال كی عمر كے بعد ہی ساری شہوت کھل كر سامنے آجاتی ہے؟ اور كيا يہ بات بھی معقول ہے كہ شاديوں كو پسند كرنے والا شخص، عين شباب ميں، ايک ایسی ثيب عورت سے شادی كرے جو اس سے پہلے دو شادياں كر چكی ہو اور پھر اس عورت كے ساتھ بغير کوئی دوسری شادی كيئے 25 سال بھی گزارے۔ اور پھر اس عورت كی وفات كے بعد دو سال تک بغير شادی كيئے ركا رہے صرف اس عورت كی تكريم اور اس كے ساتھ وفاء كے طور۔۔۔
سيدہ خديجہ رضی اللہ عنہا کی وفات كے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شادی فرمائی وہ سيدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے تھی، اور بوقت شادی سيدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی عمر اسی (80) سال تھی، يہ زمانہ اسلام ميں ہونے والی پہلی بيوہ تھيں۔ ان سے سركارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم كی شادی كا مقصد نہ صرف ان كی عزت افزائی كرنا تھی بلكہ ان جيسی اور بيوہ خواتين كو معاشرے ميں ايک با عزت مقام عطا فرمانا تھا جس كی ابتداء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے آپ سے فرمائی۔ چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دوسروں كو ايسا كرنے كا حكم بھی فرما سكتے تھے، مگر نہيں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود يہ عمل فرما كر آئندہ بنی نوع آدم كيلئے ايک مثال قائم فرما دی۔
______________
اچھا ۔ يہ سب كچھ كہنے كے بعد ہم يہ نتيجہ اخذ كر سكتے ہيں كہ: حضور اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طريقوں سے شادياں فرمائیں:
1. محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحيثيت ايک مرد (صرف سيدہ خديجہ سے شادی کی)
2. محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحيثيت ايک رسول (باقی ساری خواتين سے شادياں فرمائیں)
______________
اچھا اب ایک اور سوال پوچھتے ہیں: كيا محمد رسول اللہ اكيلے ہی ايسے نبی ہيں جنہوں نے متعدد شادياں كيں يا دوسرے نبيوں نے بھی ايسا كيا؟
جی، اسكا جواب ہاں ميں ہے۔ کئی رسولوں اور نبيوں نے (مثال كے طور پر) سيدنا ابراہيم ، سيدنا داؤود اور سيدنا سليمان صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین نے ايسا كيا۔ اور يہ سب كچھ آسمانی كتابوں ميں لكھا ہوا ہے،
______________________________________________________________
تو پھر بات كيا ہے كہ مغربی ممالک اسی بات كو ہی بنياد بنا كر ہم پر حملے كرتے ہيں؟ جبكہ حقيقت كا وہ نہ صرف اعتراف كرتے ہيں بلكہ يہ سب كچھ ان كے پاس لکھا ہوا بھی ہے۔
آئيے اب ان سیاسی ، اجتماعی اور دینی وجوہات پر بات كرتے ہيں جن کی بناء پر سركارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم كو متعدد شادياں كرنا پڑيں:
___________________________________________
سب سے پہلی وجہ:
-------------------------
تاكہ اسلام نہايت ہی اہتمام سے اپنی مكمل خصوصيات اور تفاصيل كے ساتھ (مثال كے طور پر نماز اپنی پوری حركات و سكنات كے ساتھ ) نسل در نسل چلتا جائے۔ تو اس كيلئے تو بہت ہی ضروری تھا كہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے گھر ميں داخل ہوں اور وہاں سے يہ ساری تفاصيل ملاحظہ كريں اور امت كی تعليم كيلئے عام كريں۔ اس مقصد كيلئے اللہ سبحانہ و تعالی نے سيدہ عائشہ سے رسول اكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی لكھ دی۔ ان كی كم عمری کی بنا پر ان ميں سيكھنے کی صلاحيتيں زيادہ تھیں (عربی مقولہ ہے: العلم في الصغر كالنقش علی الحجر۔ بچپن ميں سيكھا ہوا علم پتھر پر نقش كی مانند ہوتا ہے)، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے وصال كے بعد بياليس (42) برس زندہ رہيں اور دين کی ترويج و اشاعت كا كام كيا۔ اور آپ رضی اللہ عنہا لوگوں ميں سب سے زيادہ فرائض و نوافل كا علم ركھنے والی تھیں۔ اور زوجات الرسول صلی اللہ ولیہ وسلم سے اجمالی طور پر روايت كردہ احاديث كی تعداد تين ہزار (3000) ہے۔ اور جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی كم عمری کی شادی سے شبہات پيدا كئے جاتے ہيں يہ تو عرب كے صحرا كے دستور تھے كہ ايک تو بچياں بھی ادھر جلدی بلوغت كو پونہچا كرتی تھیں اور دوسرا كم سنی ميں شادياں بھی کر دی جاتی تھيں، اور پھر يہ دستور اس زمانے ميں صرف عربوں ميں ہی نہيں تھا بلكہ روم و فارس ميں بھی يہی ہوتا تھا۔
دوسری وجہ:
---------------
تاكہ صحابہ كرام كو ايک ايسے رشتے باندھ ديا جائے جو امت كو مضبوطی سے جكڑے ركھے۔ يہی وجہ تھی كہ سركار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا ابو بكر كی بيٹی سے شادی فرمائی۔ اور سيدنا عثمان سے اپنی دو بيٹيوں كی شادی فرمائی۔ اور اپنی تيسری بيٹی كی شادی سيدنا علی سے فرمائی۔ رضي اللہ عنہم جميعا و أرضاھم
تيسری وجہ:
---------------
بيواؤں كے ساتھ رحمت والا سلوک اور برتاؤ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود بيواؤں (سيدہ سودہ ، أم سلمہ اور ام حبيبہ) سے شادياں فرمائيں۔
چوتھی وجہ:
--------------
اسلامی شريعت كا مكمل طور پر نفاذ،!!!
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اپنے آپ پر لاگو كركے دوسروں اور بعد ميں آنے والے مسلمانوں كيلئے اسوہ بناديا۔ چاہے يہ بيواؤں كی عزت و تكريم كا معاملہ تھا يا اسلام ميں داخل ہونے والے ان نو مسلموں كے ساتھ رحمت و شفقت كے اظہار كيلئے تھا مثال كے طور پر حضرت صفيہ رضی اللہ عنہا سے شادی جو كہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ان كے والد كے اسلام ميں داخل ہونے كے بعد فرمائی۔ اور حضرت صفيہ كی عزت و منزلت كو يہوديوں ميں ايک مثال بنا ديا۔
پانچويں وجہ:
---------------
محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ تاكہ دنيا كے ہر خطے اور طول و عرض كے ملكوں تک محبتِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم لوگوں كے دِلوں ميں گھر كر جائے، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدہ ماريا (مصريہ) سے شادی كر كے خطہ عرب سے باہر كے ملكوں كو بھی اپنی محبت ميں پرو كر ركھ ديا، اور اسی طرح سيدہ جويريہ سے شادی كا معاملہ ہے جو كہ ان كے قبيلہ (بنو المصطلق) كے اسلام لانے كا سبب بنا، حالانكہ اس وقت يہ سارا قبيلہ غزوہ بني المصطلق كے بعد مسلمانوں كی قيد ميں تھا جو كہ بذاتِ خود ايک بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔
ميں اميد كرتا ہوں كہ جو كچھ كہا ہے وہ آپ كيلئے نہ صرف يہ كہ دلی اطمئنان كا باعث بنے گا بلكہ ايسے لوگوں كا سامنا كرتے وقت قوت و ثابت قدمی بھی دے گا جو آپ كے ايمان كو متزلزل كرنے يا ہمارے دين اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم كی شان ميں زبان درازی كی جرأت كرنے آپ كے سامنے آتے ہيں۔. —
اے اللہ تیرا لا تعداد شکر ہے کہ تو نے ہمیں اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں پیداکیا ! ♥ :)
یارسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) تیرے چاہنے والوں کی خیر
اللّھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا وَ مَولَانَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہ وَ صَحْبِہ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ ♥
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
اللَّهُـمّ صَــــــلٌ علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ
كما صَــــــلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ
مَجِيدٌ اللهم بارك علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما
باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬▬▬●
نصرانی بادشاہ کے حضرت عُمر رضی اللہ تعالی عنہُ سے چار سوال
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ اکثر اوقات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مسئلے پوچھتے رہتے تھے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باری تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی تھی کہ الٰہی عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو کتاب اور حکمت سکھا دے۔اس دعا کی بدولت حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی علمی معلومات بہت وسیع تھیں۔
ایک دفعہ ایک نصرانی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے۔ ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ سوالات درج ذیل ہیں:۔
پہلا سوال
ایک ماں کے شکم سے دو بچے ایک دن ایک ہی وقت پید اہوئے۔ پھر دونوں کا انتقال بھی ایک ہی دن ہوا۔ ایک بھائی کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی سوسال چھوٹی ہوئی۔ یہ کون تھے؟ اور ایسا کس طرح ہوا؟
دوسرا سوال
وہ کونسی زمین ہے کہ جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک دفعہ سورج کی کرنیں لگیں‘ نہ پہلے کبھی لگی تھیں نہ آئندہ کبھی لگیں گی۔
تیسرا سوال
وہ کونسا قیدی ہے جس کی قید خانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے۔
چوتھا سوال
وہ کونسی قبر ہے جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی پھرتی تھی۔ پھر وہ مردہ قبر سے باہر نکل کر کچھ عرصہ زندہ رہ کر وفات پایا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ ان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قلم برداشتہ جواب تحریر فرمادیا۔
پہلاجواب
جو دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت پیدا ہوئے اور دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی اور ان کی عمر میں سو سال کا فرق۔ یہ بھائی حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام تھے۔ یہ دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ان دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی۔ لیکن بیچ میں حضرت عزیر علیہ السلام کو اپنی قدرت کاملہ دکھانے کیلئے پورے سو سال مارے رکھا۔ سو سال موت کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی۔ سورہ آل عمران میں یہ ذکر موجود ہے۔ ”وہ گھر گئے پھر کچھ عرصہ مزید زندہ رہ کر رحلت فرمائی۔“ دونوں بھائیوں کی وفات بھی ایک دن ہوئی۔ اس لیے حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر اپنے بھائی سے چھوٹی ہوئی اور حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر سو سال بڑی ہوئی۔
دوسرا جواب
وہ زمین سمندر کی کھاڑی قلزم کی تہہ ہے کہ جہاں فرعون مردود غرق ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے دریا خشک ہوا تھا۔ حکم الٰہی سے سورج نے بہت جلد سکھایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مع اپنی قوم بنی اسرائیل پار چلے گئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر داخل ہوا تو وہ غرق ہوگیا اس زمین پر سورج ایک دفعہ لگا پھر قیامت تک بھی نہ لگے گا۔
تیسرا جواب
جس قیدی کو قیدخانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے وہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے شکم میں قید ہے۔ خداوند تعالیٰ نے اس کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا اور نہ وہ سانس لیتا ہے۔
چوتھا جواب
وہ قبر جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ۔ وہ مردہ حضرت یونس علیہ السلام تھے اور ان کی قبر مچھلی تھی جو ان کو پیٹ میں رکھے جگہ جگہ پھرتی تھی یعنی سیر کراتی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر عرصہ تک حیات رہے پھر وفات پائی۔
سبحان الله
ایک دفعہ ایک نصرانی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے۔ ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ سوالات درج ذیل ہیں:۔
پہلا سوال
ایک ماں کے شکم سے دو بچے ایک دن ایک ہی وقت پید اہوئے۔ پھر دونوں کا انتقال بھی ایک ہی دن ہوا۔ ایک بھائی کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی سوسال چھوٹی ہوئی۔ یہ کون تھے؟ اور ایسا کس طرح ہوا؟
دوسرا سوال
وہ کونسی زمین ہے کہ جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک دفعہ سورج کی کرنیں لگیں‘ نہ پہلے کبھی لگی تھیں نہ آئندہ کبھی لگیں گی۔
تیسرا سوال
وہ کونسا قیدی ہے جس کی قید خانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے۔
چوتھا سوال
وہ کونسی قبر ہے جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی پھرتی تھی۔ پھر وہ مردہ قبر سے باہر نکل کر کچھ عرصہ زندہ رہ کر وفات پایا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ ان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قلم برداشتہ جواب تحریر فرمادیا۔
پہلاجواب
جو دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت پیدا ہوئے اور دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی اور ان کی عمر میں سو سال کا فرق۔ یہ بھائی حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام تھے۔ یہ دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ان دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی۔ لیکن بیچ میں حضرت عزیر علیہ السلام کو اپنی قدرت کاملہ دکھانے کیلئے پورے سو سال مارے رکھا۔ سو سال موت کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی۔ سورہ آل عمران میں یہ ذکر موجود ہے۔ ”وہ گھر گئے پھر کچھ عرصہ مزید زندہ رہ کر رحلت فرمائی۔“ دونوں بھائیوں کی وفات بھی ایک دن ہوئی۔ اس لیے حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر اپنے بھائی سے چھوٹی ہوئی اور حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر سو سال بڑی ہوئی۔
دوسرا جواب
وہ زمین سمندر کی کھاڑی قلزم کی تہہ ہے کہ جہاں فرعون مردود غرق ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے دریا خشک ہوا تھا۔ حکم الٰہی سے سورج نے بہت جلد سکھایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مع اپنی قوم بنی اسرائیل پار چلے گئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر داخل ہوا تو وہ غرق ہوگیا اس زمین پر سورج ایک دفعہ لگا پھر قیامت تک بھی نہ لگے گا۔
تیسرا جواب
جس قیدی کو قیدخانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے وہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے شکم میں قید ہے۔ خداوند تعالیٰ نے اس کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا اور نہ وہ سانس لیتا ہے۔
چوتھا جواب
وہ قبر جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ۔ وہ مردہ حضرت یونس علیہ السلام تھے اور ان کی قبر مچھلی تھی جو ان کو پیٹ میں رکھے جگہ جگہ پھرتی تھی یعنی سیر کراتی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر عرصہ تک حیات رہے پھر وفات پائی۔
سبحان الله
مر نے کے بعد کو انسان کو کس چیز کا ثواب ملتا رہتا ہے ؟
یحیی بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، العلاء، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
جب انسان مر جاتا ہے تو
تین اعمال کے علاوہ تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں
صدقہ جاریہ
یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے
یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔
----------------------------------
Abu Huraira(R.A) (Allah be pleased with him) reported
Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying:
When a man dies,
his acts come to an end,
but three,
recurring charity,
or knowledge (by which people) benefit,
or a pious son, who prays for him
(for the deceased).
----------------------------------
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1730
حدیث مرفوع مکررات 6 متفق علیہ 1 بدون مکر
Subscribe to:
Posts (Atom)
Pakistani Awam Ki Mushkilat
Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...
-
Maula Ya Salle Wasallim Junaid Jamshed by f100001310478741 Jalwa-e-Janaan, Jalwa-e-Janaan Jalwa-e-Janaan, Jalwa-e-Janaan ...
-
KHAWAB KI HAQEEQAT AKHHAM-E-ELAHI KI ROSHNI MEIN Ilm-o-Tabeer ki fazeelat yeh hai ke KHUDA WAND TALAH ne isse khas inaam s...
-
Best Collection Of Online Naats Click Here To Download In Mp3