Tuesday 17 April 2012

MAA OR BAAP



"MAA THANDI CHAON HAI TU BAAP GHANA DARAKHT"
"MAA K PAIROON TAKE JANNAT HAI TO BAAP K PEHLOO ME JANNAT"
"MAA K BEGAIR GHAR SOONA HAY TO BAAP KE BEGAIR ZINDAGI VIRAAN"
"MAA MOHABBAT KA DARYA HAI TO BAAP SHAFQAT KA SAMUNDAR"
"MAA AULAD KI RAFIQ HAI TO BAAP AULAD K LIYE SHAFIQ"
"MAA TPHFA E KHUDA WANDI HAI TO BAAP REHMAT E KHUDA WANDI"
"MAA MERA FAKHAR HAI OR BAAP MERA GHAROOR"
"MAA MERI MANZIL HAI OR BAAP MERA RASTA"

منافق کی چار علامتیں




صحیح بخاری شریف میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم، نور مجسم، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، چار علامتیں جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان میں سے ایک علامت ہوئی تو اُس شخص میں نفاق کی ایک علامت پائی گئی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے۔
(1) جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔
(2) جب بار کرے تو جھوٹ بولے۔
(3) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔
(4) جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔
(بخاری شریف، ج1، ص17، حدیث34، دارالفکر بیروت)

امانت کا وسیع مفہوم
امانت کا مفہوم انتہائی وسیع ہے، چنانچہ “قرطبی“ کا قول ہے، امانت دین کی تمام شرائط و عبادات کا نام ہے۔ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نقل فرماتے ہیں، “شرمگاہ امانت ہے، کان امانت ہے، زبان امانت ہے، پیٹ امانت ہے، ہاتھ پاؤں امانت ہیں اور جس میں امانت نہیں اُس کا ایمان نہیں۔“ معلوم ہوا جس نے اعضاء کو نافرمانی میں لگایا وہ بھی خیانت کا مرتکب ہوا۔“ (مکاشفۃ القلوب، صفحہ نمبر 43، )
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے انسان کے تمام اعضاء بنانے سے پہلے شرم گاہ کو بنایا پھر انسان کو مخاطب کرکے فرمایا، “یہ میں اپنی ایک امانت تیرے پاس رکھ رہا ہوں، تو اس کے حقوق کی ادائیگی میں سستی نہ کرنا۔ پس کان امانت ہیں، آنکھ امانت ہے، شرم گاہ امانت ہے، پیٹ امانت ہے اور زبان امانت ہے۔ (نوادر الاصول فی احادیث الرسول، جلد3، صفحہ155)
حضرت سیدنا امام فخرالدین رازی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، “جان لیجئے کہ یہ (یعنی امانت کا) باب بہت وسیع ہے پس زبان کی امانت یہ ہے کہ اس کو جھوٹ، غیبت، چغلی، کفر، بدعت اور فحش وغیرہ سے بچائے اور آنکھ کی امانت داری یہ ہے کہ اس کو حرام دیکھنے کیلئے استعمال نہ کیا جائے اور کانوں کی امانت داری یہ ہے کہ لہو و لعب، ممنوعات، فحش اور جھوٹ وغیرہ سننے میں ان کو استعمال نہ کیا جائے اسی طرح انسان کیلئے تمام اعضاء میں امانت داری لازم ہے۔
(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 109)

خیانت کا ہولناک عذاب
جب بھی آپ کے پاس کوئی شخص سامان، رقم وغیرہ کوئی سی بھی شے امانتاً رکھوائے یا آپ کسی سے کوئی چیز مثلاً کتاب وغیرہ پڑھنے کیلئے لے لیں تو طے شدہ وقت پر لوٹا دینے کی عادت بنائیے۔ خدا کی قسم! امانت میں خیانت کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی مکاشفۃ القلوب میں نقل کرتے ہیں، “قیامت کے روز ایک شخص بارگاہ خداوندی عزوجل میں پیش کیا جائے گا، اللہ تبارک و تعالٰی فرمائے گا، تو نے فلاں کی امانت لوٹا دی تھی ؟ عرض کریگا، “نہیں“ حکمِ ربی سے فرشتہ اُسے سُوئے جہنم لے چلے گا، وہاں وہ جہنم کی گہرائی میں امانت کو رکھا ہوا دیکھے گا اور اُس کی طرف گرے گا اور ستر سال کے بعد وہاں پہنچے گا، پھر وہ امانت اٹھا کر اوپر کی طرف آئیگا مگر جوں ہی کنارے پر پہنچے گا اُس کا پاؤں پھسل جائیگا اور وہ جھنم کی گہرائی میں جا گرے گا۔ اسی طرح وہ چڑھتا گرتا رہے گا یہاں تک کہ مصطفٰے جانِ رحمت، تاجدار رسالت، شفیع امت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے اُسے رب العزت کی رحمت حاصل ہو جائیگی اور امانت کا مالک اُس سے راضی ہو جائیگا۔“
(مکاشفہ القلوب، ص
44

[Bukhari Vol. 1 : No. 33]

Narrated 'Abdullah bin 'Amr (Radi-Allahu 'anhu):

The Prophet (Sallallahu 'Alaihi Wa Sallam) said, "Whoever has the following
four (characteristics) will be a pure hypocrite and whoever has one of the
following four characteristics will have one characteristic of hypocrisy
unless and until he gives it up.

1. Whenever he is entrusted, he betrays.

2. Whenever he speaks, he tells a lie.

3. Whenever he makes a covenant, he proves treacherous.

4. Whenever he quarrels, he behaves in a very imprudent, evil and insulting
manner."

قصہ ایک مچھیرے کا


ايک دفعہ كا ذكر ہے كہ ايک تھا مچھیرا ، اپنے كام ميں مگن اور راضی خوشی رہنے والا۔ وہ صرف مچھلی كا شكار كرتا اور باقی وقت گھر پر گزارتا۔ قناعت كا يہ عالم كہ جب تک پہلی شكار كی ہوئی مچھلی ختم نہ ہو دوبارہ شكار پر نہ جاتا۔


ايک دن كی بات ہے کہ ۔۔۔ مچھیرے کی بيوی اپنے شوہر کی شكار كردہ مچھلی كو چھیل كاٹ رہی تھی كہ اس نے ايک حيرت ناک منظر ديكھا۔۔۔ حيرت نے تو اسكو كو دنگ كر كے ركھ ديا تھا۔۔۔ ايک چمكتا دمكتا موتی مچھلی كے پيٹ ميں۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ سرتاج، سرتاج، آؤ ديكھو تو، مجھے كيا ملا ہے۔۔۔ كيا ملا ہے، بتاؤ تو سہی۔۔۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی ۔۔۔ كدھر سے ملا ہے۔۔۔ مچھلی کے پيٹ سے۔۔۔ لاؤ مجھے دو ميری پياری بيوی، لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس كو بيچ كر مچھلی كے علاوہ كچھ اور كھانا کھانے كو ملے گا۔۔۔


مچھیرے نے بيوی سے موتی لیا۔۔۔ اور محلے كے سنار كے پاس پونہچا۔۔۔ السلام عليكم۔۔۔ و عليكم السلام۔۔۔ جی قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی كےپيٹ سے موتی ملا ہے۔۔۔ دو مجھے ، ميں ديكھتا ہوں اسے۔۔۔ اوہ،،،، يہ تو بہت عظيم الشان ہے۔۔۔ ميرے پاس تو ايسی قيمتی چيز خريدنے كی استطاعت نہيں ہے۔۔۔ چاہے اپنا گھر ، دكان اور سارا مال و اسباب ہی كيوں نہ بيچ ڈالوں، اس موتی كی قيمت پھر بھی ادا نہیں کر سكتا میں۔۔۔ تم ايسا كرو ساتھ والے شہر كے سب سے بڑے سنار كے پاس چلے جاؤ۔۔۔ ہو سكتا ہے كہ وہ اسکی قيمت ادا كر سكے، جاؤ اللہ تيرا حامی و ناصر ہو۔۔۔


مچھیرا موتی لے كر، ساتھ والے شہر كے سب سے امير كبير سنار كے پاس پونہچا، اور اسے سارا قصہ كہہ سنايا۔۔۔ مجھے بھی تو دكھاؤ، ميں ديكھتا ہوں ايسی كيا خاص چيز مل گئی ہے تمہيں۔۔۔ اللہ اللہ ، پروردگار كی قسم ہے بھائی، ميرے پاس اسكو خريدنے کی حيثيت نہیں ہے۔۔۔ ليكن ميرے پاس اسكا ايک حل ہے، تم شہر كے والی کے پاس چلے جاؤ۔۔۔ لگتا ہے ايسا موتی خريدنے كی اسكے پاس ضرور حيثيت ہوگی۔۔۔ مدد كرنے كا شكريہ، ميں چلتا ہوں والی شہر کے پاس۔۔۔


اور اب شہر كے والی كے دروازے پر ہمارا یہ مچھیرا دوست ٹھہرا ہوا ہے، اپنی قيمتی متاع كے ساتھ، محل ميں داخلے كی اجازت كا منتظر۔۔۔ اور اب شہر كے والی كے دربار ميں اس كے سامنے۔۔۔ ميرے آقا، يہ ہے ميرا قصہ ، اور يہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی كے پيٹ سے ملا۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ كيا عديم المثال چيز ملی ہے تمہيں، ميں تو گويا ايسی چيز ديكھنے كی حسرت ميں ہی تھا۔۔۔ ليكن كيسے اس كی قيمت كا شمار كروں۔۔۔ ايک حل ہے ميرے پاس، تم ميرے خزانے ميں چلے جاؤ۔۔۔ اُدھر تمہيں 6 گھنٹے گزارنے كی اجازت ہوگی۔۔۔ جس قدر مال و متاع لے سكتے ہو لے لينا، شايد اس طرح موتی کی كچھ قيمت مجھ سے ادا ہو پائے گی۔۔۔ آقا، 6 گھنٹے!!!! مجھ جيسے مفلوک الحال مچھیرے كيلئے تو 2 گھنٹے بھی كافی ہيں۔۔۔ نہيں، 6 گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سكتے ہو، اجازت ہے تمہيں۔۔۔


ہمارا یہ مچھیرا دوست والی شہر كے خزانے ميں داخل ہو كر دنگ ہی رہ گيا، بہت بڑا اور عظيم الشان ہال كمرا، سليقے سے تين اقسام اور حصوں ميں بٹا ہوا، ايک قسم ہيرے، جواہرات اور سونے كے زيورات سے بھری ہوئی۔۔۔ ايک قسم ريشمی پردوں سے مزّين اور نرم و نازک راحت بخش مخمليں بستروں سے آراستہ۔۔۔ اور آخری قسم كھانے پينے كی ہر اُس شئے سے آراستہ جس كو ديكھ كر منہ ميں پانی آجائے۔۔۔


مچھيرے نے اپنے آپ سے كہا،،، 6 گھنٹے؟؟؟ مجھ جيسے غريب مچھیرے كيلئے تو بہت ہی زيادہ مہلت ہے يہ۔۔۔ كيا كروں گا ميں ان 6 گھنٹوں ميں آخر؟؟؟ خير۔۔۔ كيوں نہ ابتدا كچھ كھانے پينے سے كی جائے؟؟؟ آج تو پيٹ بھر كر كھاؤں گا، ايسے كھانے تو پہلے كبھی ديكھے بھی نہيں۔۔۔ اور اس طرح مجھے ايسی توانائی بھی ملے گی جو ہيرے، جواہرات اور زيور سميٹنے ميں مدد دے۔۔۔


اور جناب ہمارا يہ مچھیرا دوست خزانے كی تيسری قسم ميں داخل ہوا۔۔۔ اور ادھر اُس نے والی شہر كی عطاء كردہ مہلت ميں سے دو گھنٹے گزار ديئے۔۔۔ اور وہ بھی محض كھاتے، كھاتے، كھاتے۔۔۔ اس قسم سے نكل كر ہيرے جواہرات كی طرف جاتے ہوئے، اس كی نظر مخمليں بستروں پر پڑی، اُس نے اپنے آپ سے كہا۔۔۔ آج تو پيٹ بھر كر كھايا ہے۔۔۔ كيا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام كر ليا جائے تو، اس طرح مال و متاب جمع كرنے ميں بھی مزا آئے گا۔۔۔ ايسے پر تعيش بستروں پر سونے كا موقع بھی تو بار بار نہيں ملے گا، اور موقع كيوں گنوايا جائے۔۔۔ مچھيرے نے بستر پر سر ركھا اور بس،،،، پھر وہ گہری سے گہری نيند ميں ڈوبتا چلا گيا۔۔۔
اُٹھ ۔ اُٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہو چكی ہے۔۔۔ ہائيں، وہ كيسے؟؟؟ جی، تو نے ٹھيک سنا ہے، نكل ادھر سے باہر كو۔۔۔ مجھ پر مہربانی كرو، مجھے كافی وقت نہيں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ تجھے اس خزانے ميں آئے 6 گھنٹے گزر چكے ہيں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے۔۔۔! اور ہيرے جواہرات اكٹھے كرنا چاہتا ہے كيا؟؟؟ تجھے تو یہ سارا خزانہ سميٹ لينے كيلئے كافی وقت ديا گيا تھا۔۔۔ تاكہ جب ادھر سے باہر نكل كر جاتا تو ايسا بلكہ اس سے بھی بہتر کھانا خريد پاتا۔۔۔ اور اس جيسے بلكہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا۔۔۔ ليكن تو احمق نكلا كہ غفلت ميں پڑ گيا۔۔۔ تو نے اس كنويں كو ہی سب كچھ جان ليا جس ميں رہتا تھا۔۔۔ باہر نكل كر سمندروں كی وسعت ديكھنا تونے گوارہ ہی نہ کی۔۔۔ نكالو باہر اس كو۔۔۔ نہيں، نہيں، مجھے ايک مہلت اور دو، مجھ پر رحم كھاؤ۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••


(( يہ قصہ تو ادھر ختم ہو گيا ہے ))

ليكن عبرت حاصل كرنے والی بات ابھی ختم نہيں ہوئی۔۔۔
اُس قيمتی موتی كو پہچانا ہے آپ لوگوں نے؟؟؟
وہ تمہاری روح ہے اے ابن آدم، اے ضعيف مخلوق!!!
يہ ايسی قيمتی چيز ہے جس كی قيمت كا ادراك بھی نہيں کیا جا سكتا۔۔۔
اچھا، اُس خزانے كے بارے ميں سوچا ہے كہ وہ كيا چيز ہے؟؟؟
جی ہاں، وہ دنيا ہے۔۔۔
اسكی عظمت كو ديكھ دیکھ اسكے حصول كيلئے ہم كيسے مگن ہيں؟؟؟
اس خزانے ميں ركھے گئے ہيرے جواہرات!!!
وہ تيرے اعمال صالحہ ہيں۔۔۔
اور وہ پر تعيش و پر آسائش بستر!!!
وہ تيری غفلت ہيں۔۔۔
اور وہ كھانا-پينا!!!
وہ شہوات ہيں۔۔۔
اور اب۔۔۔ اے مچھلی كا شكار كرنے والے دوست۔۔۔
اب بھی وقت ہے كہ نيندِ غفلت سے جاگ جا،،
اور چھوڑ دے اس پر تعيش اور آرام دہ بستر كو۔۔۔
اور جمع كرنا شروع كر دے ان ہيروں اور جواہرات كو جو کہ تيری دسترس ميں ہی ہیں۔۔۔
اس سے قبل كہ تجھے دی گئی 6 گھنٹوں كی مہلت ختم ہو جائے۔۔۔
تجھے محض حسرت ہی رہ جائے گی۔۔۔
خزانے پر مأمور سپاہيوں نے تو تجھے ذرا سی بھی اور زيادہ فرصت نہيں دينی،
اور تجھے ان نعمتوں سے باہر نكال دينا ہے جن ميں تو رہ رہا ہے۔۔۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت پر شفقت کے بیان میں ۔


قتیبہ بن سعید، مغیرہ بن عبدالرحمن قرشی ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

میری مثال اور میری امت کی مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ

جس نے آگ جلائی ہوئی ہو اور سارے کیڑے مکوڑے اور پتنگے اس میں گرتے چلے جا رہے ہوں

اور میں تمہاری کمروں کو پکڑے ہوئے ہوں

اور تم بلا سوچے اندھا دھند اس میں گرتے چلے جا رہے ہو۔

------------------------------------

Abu Huraira (R.A)reported

Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying:

The similitude of mine and that of my Umma

is that of a person

who lit fire and there began to fall into it insects and moths.

And I am there to hold you back, but you plunge into it.

-------------------------------------
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1458

حدیث مرفوع مکررات 13 متفق علیہ 9


ایک سبق ان کے لئے جو سمجھ سکیں

میں ایسے لوگوں کے آٹو گراف لینے کا خواھشمند ہوں جن پر دنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں ہے - میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں ان پر دستخط تو کم لوگوں کے ہیں مگر انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں -

کسی لکڑہارے کا انگوٹھا ہے - کسی ترکھان کا ہے - کسی قصائی کا ہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں -

ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں
 آنے والے چھوٹے سے شہر مصطفیٰ آباد للیانی سے لگوایا -

میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے - اس نے گھر میں پرندوں کے دانے کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں سے خود بخود دانے ایک ایک کر کے گرتے رہتے ہیں اور پرندے شوق سے آ کر کھاتے رہتے ہیں -

جب ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو اس نے للیانی میں ایک دکان دیکھی جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے ہوئے تھے - جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول بھرے ہوئے تھے اس نے مجھ سے کہا ابو یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانا ہے -
میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو اس نے پوچھا کے آپ کو یہ باجرہ کس مقصد کے لئے چاہئے تو میرے بیٹے نے اسے بتایا کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے -
اس پر دکاندار نے کہا کہ آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو باجری نہیں کھا سکتے بلکہ کنگنی کھاتے ہیں -
وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس ضرور آیا کریں گے -

اس نے کہا بسم اللہ آپ کنگنی ضرور دیں اور اس رہنمائی کا میں آپ کا عمر بھر شکر گزار رہونگا -
وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو نہ ملا -
جیبوں، گاڑی ، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا - تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے نکال کر دکاندار کے پاس لے گیا اور کہا کہ میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوا ہی بھول گیا ہوں -

اس دکاندار نے کہا کہ " صاحب آپ کمال کرتے ہیں یہ لے جائیں پیسے آجائیں گے "
میرے بیٹے نے کہا آپ تو مجھے جانتے نہیں ہیں !
وہ دکاندار بولا میں تو آپ کو جانتا ہوں
وہ کیسے میرے بیٹے نے کہا
دکاندار گویا ہوا " صاحب جو شخص پرندوں کو دانا ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہو سکتا - "
میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بک نکالی اور انگوٹھا لگوا لیا -

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...