نظریاتی سیاست اور شہباز شریف کی وزارت عظمی کےلئے نامزدگی ۔۔۔ تحریر: عاصم اعوان
سابق وزیراعظم نواز شریف نے مسلم
لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ اگرچہ اپنے
آغازِ سیاست میں میں نظریاتی نہیں تھا لیکن حالات و واقعات نے مجھے نظریاتی بنا
دیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک انتہائی جذباتی بیان تو تصور کیا جا سکتا ہے لیکن نواز شریف
صاحب کی یہ تقریر سن کر میرے دماغ میں ایک سوال راہ راہ کر اٹھ رہا ہے کہ اگر نواز
شریف صاحب اس وقت مکمل طور پر نظریاتی ہو چکے ہیں اور خاندانی سیاست سے بالاتر ہو
چکے ہیں تو کیا انہیں اپنی پوری پارٹی میں شہباز شریف صاحب کے علاوہ کوئی بھی شخص
پنجاب کی وزارت اعلیٰ کےلئے موزوں نظر اکیوں نہیں آتا۔ کیا ن لیگ میں شریف فیملی
کے علاوہ کوئی بھی شخص نظریاتی نہیں ہے اور سارے نظریات و پاکستان کے مفادات شریف
فیملی کی حکومت اور عہدوں سے ہی کیوں منسلک ہے؟
نظریاتی پارٹیوں میں تو ایک ہی
خاندان کی اجارہ داری نہییں ہوتی۔ یا تو اپنی پارٹی سے ناکارہ اور مفاد پرست لوگوں
کو نکال کر نظریاتی اور اہل لوگوں کو شامل کریں تاکہ اکیلی شریف فیملی پر ہی سارے
پاکستان کی خدمت کا بوجھ نہ پڑے یا پھر مان لیں کہ آپ کا نظریہ صرف اور صرف اقتدار
ہے اور آپ کواپنے خاندان سے باہر اقتدار کا جانا کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔