ذور لوگوں پر ترس کھا کر یا بھیک دے کر ان کی حوصلہ شکنی نہ کریں بلکہ رزق حلال کمانے میں انکی حوصلہ افزائی کر کے ان کو معاشرے کا ایک فعال فرد بننے میں مدد دیجئے !
---------------------------------------------------------------------------------------
کافی عرصہ پہلے مجھے اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت کیلئے پنجاب جانے کا اتفاق ھوا چونکہ کافی لمبا سفر طے کرکے شادی میں شرکت کیلئے آئے تھے لہزا ٹہرنا بھی زیادہ عرصے کیلئے تھا تاکہ سب رشتہ داروں سے میل ملاقات کرلی جائے۔ شادی کی تقریبات سے فراغت کے بعد چونکہ میرے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں تھا سو میں اکثر محلے میں بڑے ابو کے نام سے مشہور ایک انتہائی بزرگ شخصیت کے پاس جاکر بیٹھ جاتا تھا گو وہ خود انتہائی کم گو نمازی پرھیز گار انسان تھے لیکن جب بھی وہ بات کرتے تھے تو نہایت عمدہ اور بامعنی کرتے تھے ۔ میں نے نوٹ کیا کہ اکثر بڑے ابو ایک لڑکے کو جو کہ ایک ھاتھ سے معزور تھا اور گلے میں قلم اور پنسلوں سے بھرا ایک میلا سا بستہ ڈالے گلیوں اور محلوں میں آواز لگا کر بیچا کرتا تھا کو جب بھی ھمارے محلے سے گزرتا تو اسے خصوصی طور پر آواز دے کر بلاتے اور اس سے ایک ساتھ کئی قلم بغیر کسی ضرورت کے خرید لیا کرتے اور بعد میں وہ اسے ھم سب لڑکوں میں بانٹ دیا کرتے تھے
ایک دن مجھ سے رھا نہ گیا اور میں نے بڑے ابو سے پوچھ ھی لیا کہ آخر وہ بغیر ضرورت کے قلم وہ بھی اس لڑکے سے ھی کیوں خریدتے ھیں؟ تو وہ میرا سوال سن کر ہلکا سا مسکرائے اور کہا کہ میں یہ قلم صرف اس لیے اس معزور لڑکے سے خریدتا ھوں کہ یہ لڑکا جو ایک ھاتھ سے محروم ھونے کے باوجود محنت کرکے حق حلال سے روزی کمانے کی کوشش کررھا ھے بجائے اسکے کہ اسے آسانی سے ایک ہاتھ نہ ھونے کی وجہ سے بھیک بھی مل سکتی ھے کہیں سچ مچ ھی مایوس ھوکر بھیک نہ مانگنے لگ جائے کہ دنیا میں بھیک منگوں کی کمی نہیں ھے اور نہ ھی ان کی مدد کرنے والوں کی لیکن ایسے بہت کم لوگ ھوتے ھیں جو بیکاری کو خوداری پر ترجیح دیں سو اس طرح میں اسکی مدد بھی کرتا ھوں اور بنا اسکی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر کے میں چاھوں تو اس سے بغیر قلم لیے بھی اسے پیسے دے سکتا ھوں لیکن اس طرح اسے غلط پیغام جائے گا اور پھر ایسے بہت سے لوگ ھیں جو بنا کسی جسمانی عذر کے بھیک مانگتے ھیں لہزا میرے نزدیک اسکی مدد کرنے کی یہی وجہ بہت ھے کہ یہ لڑکا معزور ھونے کے باوجود بھیک نہیں مانگتا بلکہ محنت کرتا ھے ۔
انکی یہ بات اور میرے دل میں اثر کرگئی اور یہی وجہ ھے انکی یہ بات سننے کے بعد میں نے آج تک کسی پیشہ ور بھکاری کو کبھی پیسے نہیں دیے اور ھمیشہ کوشش کی کہ وھی رقم کسی معزور مگر خودار انسان کی مدد پر خرچ کروں ۔ اسی طرح کا ایک کردار مجھے کچھ عرصہ قبل اپنے کام سے گھر جاتے ھوئے نظر آیا جو کہ ایک ٹانگ سے محروم تھا اور سخت سردی میں ایک ھاتھ سے اپنا ٹھیلا دھکیل رھا تھا اور دوسرے ھاتھ سے اپنی بیساکھی سنبھالی ھوئی تھی مجھے یہ دیکھ کر خوشی ھوئی کہ وہ معزوری کے باوجود مزدوری کرکے اپنا پیٹ پال رھا ھے سو میں نے اسکے ٹھیلا کھڑا کرنے کا مقام ڈوھونڈ کر اکثر اس سے غیر ضروری طور پر کوئی نہ کوئی چیز خرید لیا کرتا تھا
ایک دن اتفاق سے میرے ایک دوست نے مجھے خریداری کرتے ھوئے دیکھ لیا اور جب اس نے سامان جو میں نے اس ٹھیلے والے سے خریدا تھا کی طرف دیکھا اور قیمت پوچھی تو کہنے لگے کہ اس سے اچھا اور قیمت میں کم اور ٹھیلا والے بیچ رھے ھیں ان سے کیوں نہیں خریدا تو میں نے انہیں وھی وجہ جو ان بزرگ نے مجھے بیان کی تھی انہیں سنائی تو وہ بھی کافی متاثر ھوئے اور کہنے لگے کہ کل سے میں بھی ایسا ھی کروں گا ۔
انکی یہ بات سن کر میرے دل میں یہ خیال پیدا ھوا کہ کیوں نہ اس اچھی بات کو میں اپنے تمام دوست احباب سے بیان کروں تاکہ یہ نیک عمل وہ لوگ بھی انجام دیں اور ھمارے معاشرے کا وہ طبقہ جو معزور ھے ان میں بھی ایسے معزور اور محنتی لوگ دیکھ کر یہ احساس پیدا ھو کہ اگر یہ محنت کرکے کماسکتا ھے تو میں کیوں نہیں کہ ھمارے اس چھوٹے سے عمل سے نیکی بھی ملے گی اور معاشرے سے گداگری کی لعنت بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی
سو میری دعا ھے کہ اللہ ھم سب کو ایسا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور آپ سب سے گزارش ھے کہ اس پیغام کو جتنا زیادہ پھیلا سکتے ھیں پھیلائیں شکریہ ۔
آپ سب کی دعاؤں کا طلبگار
---------------------------------------------------------------------------------------
کافی عرصہ پہلے مجھے اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت کیلئے پنجاب جانے کا اتفاق ھوا چونکہ کافی لمبا سفر طے کرکے شادی میں شرکت کیلئے آئے تھے لہزا ٹہرنا بھی زیادہ عرصے کیلئے تھا تاکہ سب رشتہ داروں سے میل ملاقات کرلی جائے۔ شادی کی تقریبات سے فراغت کے بعد چونکہ میرے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں تھا سو میں اکثر محلے میں بڑے ابو کے نام سے مشہور ایک انتہائی بزرگ شخصیت کے پاس جاکر بیٹھ جاتا تھا گو وہ خود انتہائی کم گو نمازی پرھیز گار انسان تھے لیکن جب بھی وہ بات کرتے تھے تو نہایت عمدہ اور بامعنی کرتے تھے ۔ میں نے نوٹ کیا کہ اکثر بڑے ابو ایک لڑکے کو جو کہ ایک ھاتھ سے معزور تھا اور گلے میں قلم اور پنسلوں سے بھرا ایک میلا سا بستہ ڈالے گلیوں اور محلوں میں آواز لگا کر بیچا کرتا تھا کو جب بھی ھمارے محلے سے گزرتا تو اسے خصوصی طور پر آواز دے کر بلاتے اور اس سے ایک ساتھ کئی قلم بغیر کسی ضرورت کے خرید لیا کرتے اور بعد میں وہ اسے ھم سب لڑکوں میں بانٹ دیا کرتے تھے
ایک دن مجھ سے رھا نہ گیا اور میں نے بڑے ابو سے پوچھ ھی لیا کہ آخر وہ بغیر ضرورت کے قلم وہ بھی اس لڑکے سے ھی کیوں خریدتے ھیں؟ تو وہ میرا سوال سن کر ہلکا سا مسکرائے اور کہا کہ میں یہ قلم صرف اس لیے اس معزور لڑکے سے خریدتا ھوں کہ یہ لڑکا جو ایک ھاتھ سے محروم ھونے کے باوجود محنت کرکے حق حلال سے روزی کمانے کی کوشش کررھا ھے بجائے اسکے کہ اسے آسانی سے ایک ہاتھ نہ ھونے کی وجہ سے بھیک بھی مل سکتی ھے کہیں سچ مچ ھی مایوس ھوکر بھیک نہ مانگنے لگ جائے کہ دنیا میں بھیک منگوں کی کمی نہیں ھے اور نہ ھی ان کی مدد کرنے والوں کی لیکن ایسے بہت کم لوگ ھوتے ھیں جو بیکاری کو خوداری پر ترجیح دیں سو اس طرح میں اسکی مدد بھی کرتا ھوں اور بنا اسکی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر کے میں چاھوں تو اس سے بغیر قلم لیے بھی اسے پیسے دے سکتا ھوں لیکن اس طرح اسے غلط پیغام جائے گا اور پھر ایسے بہت سے لوگ ھیں جو بنا کسی جسمانی عذر کے بھیک مانگتے ھیں لہزا میرے نزدیک اسکی مدد کرنے کی یہی وجہ بہت ھے کہ یہ لڑکا معزور ھونے کے باوجود بھیک نہیں مانگتا بلکہ محنت کرتا ھے ۔
انکی یہ بات اور میرے دل میں اثر کرگئی اور یہی وجہ ھے انکی یہ بات سننے کے بعد میں نے آج تک کسی پیشہ ور بھکاری کو کبھی پیسے نہیں دیے اور ھمیشہ کوشش کی کہ وھی رقم کسی معزور مگر خودار انسان کی مدد پر خرچ کروں ۔ اسی طرح کا ایک کردار مجھے کچھ عرصہ قبل اپنے کام سے گھر جاتے ھوئے نظر آیا جو کہ ایک ٹانگ سے محروم تھا اور سخت سردی میں ایک ھاتھ سے اپنا ٹھیلا دھکیل رھا تھا اور دوسرے ھاتھ سے اپنی بیساکھی سنبھالی ھوئی تھی مجھے یہ دیکھ کر خوشی ھوئی کہ وہ معزوری کے باوجود مزدوری کرکے اپنا پیٹ پال رھا ھے سو میں نے اسکے ٹھیلا کھڑا کرنے کا مقام ڈوھونڈ کر اکثر اس سے غیر ضروری طور پر کوئی نہ کوئی چیز خرید لیا کرتا تھا
ایک دن اتفاق سے میرے ایک دوست نے مجھے خریداری کرتے ھوئے دیکھ لیا اور جب اس نے سامان جو میں نے اس ٹھیلے والے سے خریدا تھا کی طرف دیکھا اور قیمت پوچھی تو کہنے لگے کہ اس سے اچھا اور قیمت میں کم اور ٹھیلا والے بیچ رھے ھیں ان سے کیوں نہیں خریدا تو میں نے انہیں وھی وجہ جو ان بزرگ نے مجھے بیان کی تھی انہیں سنائی تو وہ بھی کافی متاثر ھوئے اور کہنے لگے کہ کل سے میں بھی ایسا ھی کروں گا ۔
انکی یہ بات سن کر میرے دل میں یہ خیال پیدا ھوا کہ کیوں نہ اس اچھی بات کو میں اپنے تمام دوست احباب سے بیان کروں تاکہ یہ نیک عمل وہ لوگ بھی انجام دیں اور ھمارے معاشرے کا وہ طبقہ جو معزور ھے ان میں بھی ایسے معزور اور محنتی لوگ دیکھ کر یہ احساس پیدا ھو کہ اگر یہ محنت کرکے کماسکتا ھے تو میں کیوں نہیں کہ ھمارے اس چھوٹے سے عمل سے نیکی بھی ملے گی اور معاشرے سے گداگری کی لعنت بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی
سو میری دعا ھے کہ اللہ ھم سب کو ایسا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور آپ سب سے گزارش ھے کہ اس پیغام کو جتنا زیادہ پھیلا سکتے ھیں پھیلائیں شکریہ ۔
آپ سب کی دعاؤں کا طلبگار