قرآن مجید عیب جو حضرات کو برے انجام سے ڈراتے ھوئے ان کی اس بری عادت کا نتیجہ بتاتا ھے ؛
” ویل لکل ھمزة لمزة “
(۱ ) ھر طعنہ دینے والے چغلخور کے لئے ویل ھے ۔
(سورة الهُمَزَة)
عیب جوئی:
---------------
کچھ لوگوں میں ایک منحوس عادت یہ ھوتی ھے کہ وہ ھمیشہ دوسروں کی لغزشوں اور بھیدوں کی تلاش میں رھا کرتے ھیں تاکہ ان لوگوں پر نقد و تبصرہ کریں ان کا مذاق اڑائیں ان کی سر زنش کریں ، حالانکہ خود ان لوگوں کے اندر اتنے عیوب ھوتے ھیں اور اتنی کمیاں ھوتی ھیں جو کم و کیف کے اعتبار سے ان کے فضائل پر غالب ھوتی ھے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اپنے عیوب سے غافل ھو کر دوسروں کے عیوب تلاش کرتے رھتے ھیں ۔
عیب جو حضرات اپنے جانے پھچانے دوستوں کے اعمال کے تجسس میں لگے رھتے ھیں کہ دوسروں کی کوئی بھی کمزوری ان کے ھاتہ لگ جائے تو اسی کو لے اڑیں اور دوستوں پر نقد وتبصرہ کے ساتھ ان کو بد نام کرتے پھریں اور جس قدر بھی ممکن ھو دوستوں کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا کریں ۔
اور چونکہ یہ لوگ دوسروں کی عیب جوئی میں لگے رھتے ھیں لھذا ان کو اتنی فرصت بھی نھیں ملتی کہ اپنے عیوب کو تلاش کرسکیں اور اسی لئے اس قسم کے لوگ زندگی کی ھدایت و اصلاح کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ اصولا ً اس قسم کے لوگ بز دل ھوتے ھیں ۔ یہ لوگ اپنے سے قریب ترین شخصوں کے ساتھ بھی خلوص نھیں برت سکتے ۔ اسی لئے جھاں یہ لوگ دور کے لوگوں کے عیوب بیان کرتے ھیں وھاں موقع ملنے پر قریب ترین دوستوں کی بھی برائی بیان کرنے لگتے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ ایسے لوگوں کو ایسے سچے دوست نھیں مل پاتے جو واقعی دوست ھوں اور اس کی محبت کے زیر سایہ وہ اپنے جذبات کو سکون عطا کر سکیں ۔
جو شخص لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاھتا ھے اس کی ذمہ داری ھے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے یعنی ھمیشہ لوگوں کی خوبیوں پر نظر رکھے ، ان کے نیک اعمال کو اپنے ذھن میں رکھے اور ان کے اچھے اخلاق و اچھے کردار کی قدر دانی کرے ۔ جن عادتوں یا صفتوں سے دوسروں کی شخصیت مجروح ھوتی ھو اور جو باتیں اصول کی مخالف ھوں ان سے اجتناب کرے ۔ کیونکہ محبت کو دوام محبت ھی سے ملتا ھے ۔پس جو شخص اپنے دستوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا عادی ھو گا اس کی محبت باقی رھے گی اور اس کی محبت کو دوام حاصل ھو گا ۔
لھذا اگر کسی دوست میں کوئی کمزوری دیکھو تو اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنے کے بجائے کسی مناسب موقع پر اس کو اس بات کی طرف بھت خوش اسلوبی سے متوجہ کر دو ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ھے کہ اگر دوست کی کسی کمی پر اس کو متوجہ کرنا ھے تو اس میں بھی بڑی مھارت کی ضرورت ھے اس کو ایسی خوش اسلوبی سے متوجہ کیجئے کہ اس کو تکلیف نہ پھنچے اس کے احساسات و جذبات کو ٹھیس نہ لگے ۔
ایک مربی اخلاق کا کھنا ھے : تمھارے لئے یہ ممکن ھے کہ اپنے مخاطب ( دوست ) کو اشارے یا کسی ، حرکت کے ذریعے اس کی غلطی پر متوجہ کردو، اس سے گفتگو کرنے کی ضرورت نھیں ھے ۔ کیونکہ اگر تم نے اپنے دوست سے یہ کھہ دیا کہ تمھارے اندر یہ کمی ھے تو تم نے ڈائریکٹ یہ بات کھہ کر اس کی عقل و فکر پر حملہ کیا ھے اس کی خود پسندی کو مجروح کیا ھے ۔
گفتگو کرتے وقت کسی صورت میں اس سے اس طرح گفتگو کی ابتداء نہ کیجئے : میں آپ کی غلطی کو ثابت کردوں گا میرے پاس اس کے لئے مضبوط دلیلیں ھیں ! کیونکہ اس قسم کی گفتگو کا مفھوم یہ ھے کہ آپ اس سے زیادہ عقلمند ھیں ۔ لوگوں کے افکار کی اصلاح عام حالات میں دشوار ھوتی ھے ، اگر کسی نکتہ کو ثابت ھی کرنا چاھتے ھوں تو پھلی بات یہ ھے کہ اس پر کسی کو مطلع نہ کیجئے اور اتنی ھوشیاری و مھارت سے اس کام کو انجام دیجئے کہ کوئی سوچ بھی نہ سکے کہ آپ کا مقصد کیا ھے لوگوں کو اس طرح تعلیم دو کہ کوئی تم کو معلم نہ سمجھے ۔
ھم خود اپنے بھت سے عیوب سے چشم پوشی کرتے ھیں اور ان عیوب پر غفلت و تجاھل کا پردہ اس لئے ڈالتے ھیں تاکہ اپنے نفس کو دھوکہ دے سکیں ۔ سب سے زیادہ اس پر تعجب ھے کہ ھم اپنے عیبوں کی اصلاح کرنے کے بجاۓ ان کو لوگوں کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ھیں ،
اگر ہم چاھتے ہیں کہ ہمارے عیب کسی کے سامنے ظاہر نہ ہوں تو ہمیں بھی لوگوں کی عیب جوئی سے باز آ نا چاہیے !