Sunday, 25 March 2012

قرآن مجید میں عیب جوئي کی مذمت :


قرآن مجید عیب جو حضرات کو برے انجام سے ڈراتے ھوئے ان کی اس بری عادت کا نتیجہ بتاتا ھے ؛


” ویل لکل ھمزة لمزة “ 
(۱ ) ھر طعنہ دینے والے چغلخور کے لئے ویل ھے ۔
(سورة الهُمَزَة)


عیب جوئی:
--------------- 
کچھ لوگوں میں ایک منحوس عادت یہ ھوتی ھے کہ وہ ھمیشہ دوسروں کی لغزشوں اور بھیدوں کی تلاش میں رھا کرتے ھیں تاکہ ان لوگوں پر نقد و تبصرہ کریں ان کا مذاق اڑائیں ان کی سر زنش کریں ، حالانکہ خود ان لوگوں کے اندر اتنے عیوب ھوتے ھیں اور اتنی کمیاں ھوتی ھیں جو کم و کیف کے اعتبار سے ان کے فضائل پر غالب ھوتی ھے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اپنے عیوب سے غافل ھو کر دوسروں کے عیوب تلاش کرتے رھتے ھیں ۔


عیب جو حضرات اپنے جانے پھچانے دوستوں کے اعمال کے تجسس میں لگے رھتے ھیں کہ دوسروں کی کوئی بھی کمزوری ان کے ھاتہ لگ جائے تو اسی کو لے اڑیں اور دوستوں پر نقد وتبصرہ کے ساتھ ان کو بد نام کرتے پھریں اور جس قدر بھی ممکن ھو دوستوں کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا کریں ۔


اور چونکہ یہ لوگ دوسروں کی عیب جوئی میں لگے رھتے ھیں لھذا ان کو اتنی فرصت بھی نھیں ملتی کہ اپنے عیوب کو تلاش کرسکیں اور اسی لئے اس قسم کے لوگ زندگی کی ھدایت و اصلاح کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ اصولا ً اس قسم کے لوگ بز دل ھوتے ھیں ۔ یہ لوگ اپنے سے قریب ترین شخصوں کے ساتھ بھی خلوص نھیں برت سکتے ۔ اسی لئے جھاں یہ لوگ دور کے لوگوں کے عیوب بیان کرتے ھیں وھاں موقع ملنے پر قریب ترین دوستوں کی بھی برائی بیان کرنے لگتے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ ایسے لوگوں کو ایسے سچے دوست نھیں مل پاتے جو واقعی دوست ھوں اور اس کی محبت کے زیر سایہ وہ اپنے جذبات کو سکون عطا کر سکیں ۔


جو شخص لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاھتا ھے اس کی ذمہ داری ھے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے یعنی ھمیشہ لوگوں کی خوبیوں پر نظر رکھے ، ان کے نیک اعمال کو اپنے ذھن میں رکھے اور ان کے اچھے اخلاق و اچھے کردار کی قدر دانی کرے ۔ جن عادتوں یا صفتوں سے دوسروں کی شخصیت مجروح ھوتی ھو اور جو باتیں اصول کی مخالف ھوں ان سے اجتناب کرے ۔ کیونکہ محبت کو دوام محبت ھی سے ملتا ھے ۔پس جو شخص اپنے دستوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا عادی ھو گا اس کی محبت باقی رھے گی اور اس کی محبت کو دوام حاصل ھو گا ۔


لھذا اگر کسی دوست میں کوئی کمزوری دیکھو تو اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنے کے بجائے کسی مناسب موقع پر اس کو اس بات کی طرف بھت خوش اسلوبی سے متوجہ کر دو ۔


یہ بات بھی قابل توجہ ھے کہ اگر دوست کی کسی کمی پر اس کو متوجہ کرنا ھے تو اس میں بھی بڑی مھارت کی ضرورت ھے اس کو ایسی خوش اسلوبی سے متوجہ کیجئے کہ اس کو تکلیف نہ پھنچے اس کے احساسات و جذبات کو ٹھیس نہ لگے ۔


ایک مربی اخلاق کا کھنا ھے : تمھارے لئے یہ ممکن ھے کہ اپنے مخاطب ( دوست ) کو اشارے یا کسی ، حرکت کے ذریعے اس کی غلطی پر متوجہ کردو، اس سے گفتگو کرنے کی ضرورت نھیں ھے ۔ کیونکہ اگر تم نے اپنے دوست سے یہ کھہ دیا کہ تمھارے اندر یہ کمی ھے تو تم نے ڈائریکٹ یہ بات کھہ کر اس کی عقل و فکر پر حملہ کیا ھے اس کی خود پسندی کو مجروح کیا ھے ۔ 


گفتگو کرتے وقت کسی صورت میں اس سے اس طرح گفتگو کی ابتداء نہ کیجئے : میں آپ کی غلطی کو ثابت کردوں گا میرے پاس اس کے لئے مضبوط دلیلیں ھیں ! کیونکہ اس قسم کی گفتگو کا مفھوم یہ ھے کہ آپ اس سے زیادہ عقلمند ھیں ۔ لوگوں کے افکار کی اصلاح عام حالات میں دشوار ھوتی ھے ، اگر کسی نکتہ کو ثابت ھی کرنا چاھتے ھوں تو پھلی بات یہ ھے کہ اس پر کسی کو مطلع نہ کیجئے اور اتنی ھوشیاری و مھارت سے اس کام کو انجام دیجئے کہ کوئی سوچ بھی نہ سکے کہ آپ کا مقصد کیا ھے لوگوں کو اس طرح تعلیم دو کہ کوئی تم کو معلم نہ سمجھے ۔




ھم خود اپنے بھت سے عیوب سے چشم پوشی کرتے ھیں اور ان عیوب پر غفلت و تجاھل کا پردہ اس لئے ڈالتے ھیں تاکہ اپنے نفس کو دھوکہ دے سکیں ۔ سب سے زیادہ اس پر تعجب ھے کہ ھم اپنے عیبوں کی اصلاح کرنے کے بجاۓ ان کو لوگوں کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ھیں ،


اگر ہم چاھتے ہیں کہ ہمارے عیب کسی کے سامنے ظاہر نہ ہوں تو ہمیں بھی لوگوں کی عیب جوئی سے باز آ نا چاہیے !

ہمیں اهل بيت اور صحابه کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے پیار ہے!




عراق کا بادشاہ ملک فیصل (اول) گہری نیند میں تھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ کوئی اس سے کہہ رہا تھا۔ ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی دریائے دجلہ کے کنارے دفن ہیں۔ دریا کا رخ تبدیل ہورہا ہے۔ پانی ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک میں پانی آچکا ہے جبکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر بھی نم ہونے لگی ہے ہمیں یہاں سے نکال کر دریا کے کنارے سے کچھ فاصلے پر دفن کیا جائے۔“


عراق کے بادشاہ نے یہ الفاظ خواب میں سنے لیکن ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ دوسری رات پھر یہی الفاظ سنائی دئیے لیکن اس نے اب بھی توجہ نہ دی۔


تیسری رات یہ خواب عراق کے مفتی اعظم ”نوری السعید پاشا‘ ‘ کو دکھائی دیا۔ انہوں نے اسی وقت وزیراعظم کو ساتھ لیا اور بادشاہ کی خدمت میں پہنچ گئے جب انہوں نے بادشاہ سے اپنا خواب بیان کیا تو بادشاہ چونکا اور بولا: ”یہ خواب تو میں بھی دوبار دیکھ چکا ہوں“


اب انہوں نے مشورہ کیا آخر بادشاہ نے مفتی اعظم سے کہا پہلے آپ قبروں کو کھولنے کا فتویٰ دیں تب میں اس خواب کے مطابق عمل کروں گا۔


مفتی اعظم نے اسی وقت قبروں کو کھولنے اور اس میں سے نعشوں کو نکال کر دوسری جگہ دفن کرنے کا فتویٰ جاری کردیا اب یہ فتویٰ اور شاہی فرمان اخبارات میں شائع کردئیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ عیدقربان کے دن دونوں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبریں کھولی جائیں گی۔


اخبارات میں جوں ہی یہ خبر شائع ہوئی تو دنیائے اسلام میں بجلی کی طرح پھیل گئی۔ اخبارات کی دنیا اس خبر کو لے اڑی اور مزے کی بات یہ کہ یہ حج کے دن تھے۔ تمام دنیا سے مسلمان حج کیلئے مکہ اور مدینہ میں پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے درخواست کی کہ قبریں حج کے چند روز بعد کھولی جائیں تاکہ وہ سب بھی اس پروگرام میں شرکت کرسکیں۔ اسی طرح حجاز‘ مصر‘ شام ‘ لبنان‘ فلسطین‘ ترکی‘ ایران‘ بلغاریہ‘ روس‘ ہندوستان وغیرہ ملکوں سے شاہ عراق کے نام سے بے شمار تار پہنچے کہ ہم بھی اس موقع پر شرکت کرنا چاہتے ہیں‘ مہربانی فرما کر مقررہ تاریخ چند روز آگے بڑھا دی جائے۔


چنانچہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی خواہش پر دوسرا فرمان یہ جاری کیا گیا کہ اب یہ کام حج کے دس دن بعد کیا جائے گا۔


آخر کار وہ دن بھی آگیا جب قبروں کو کھولنا تھا‘ دنیا بھر سے مسلمان وہاں جمع ہوچکے تھے۔ پیر کے دن دوپہر بارہ بجے لاکھوں انسانوں کی موجودگی میں قبروں کو کھولا گیا۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر میں کچھ پانی آچکا تھا جبکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر میں نمی پیدا ہوچکی تھی اگرچہ دریائے دجلہ وہاں سے دو فرلانگ دور تھا۔


تمام ممالک کے سفیروں‘ عراقی حکومت کے تمام ارکان اور شاہ فیصل کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اوپر اٹھایا گیا کہ ان کی نعش کرین پر رکھے گئے سٹریچر پر خودبخود آگئی۔ اب کرین سے سٹریچر کو الگ کرکے شاہ فیصل‘ مفتی اعظم‘ وزیر جمہوریہ ترکی اور شہزادہ فاروق ولی عہد مصر نے سٹریچر کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور نہایت احترام کے ساتھ ایک شیشے کے تابوت میں رکھ دیا۔پھر اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش کو نکالا گیا۔ دونوں نعشوں کے کفن بالکل محفوظ تھے یہاں تک کہ ڈاڑھی مبارک کے بال بھی صحیح سلامت تھے۔ نعشوں کو دیکھ کر قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ تیرہ سو سال پہلے کی ہیں بلکہ یوں گماں گزرتا تھا انہیں وفات پائے ابھی مشکل سے دو تین گھنٹے ہوئے ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ دونوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ ان میں اس قدر تیز چمک تھی کہ دیکھنے والے ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ نہ سکے۔بڑے بڑے ڈاکٹر یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ان میں ایک جرمن آئ سپیشلسٹ بھی تھا وہ یہ سارامنظردیکھ کر اتنا متاثر ھوا کہ اسی وقت مشرف بہ اسلام ھوگیا....سبحان اللہ

Saturday, 24 March 2012

MESSAGE TO PONDER UPON......




A poor couple who lived in a small village in Pakistan. They had only one son. Gave him the best education.


Son graduates as an Engineer in the nearby city. Eventually, got married to a rich girl. Initially, they lived with his parents in the village. Soon the wife got tired of village life and persuaded the husband to move to the city leaving the old parents in the village.


As time went the husband seen an advert in the newspaper about a vacancy in Jeddah. He was successful and lived in Jeddah for years with his wife. Regularly he used to send money to parents.
Eventually with time he stopped and forgot about his parents ever existed.


Every year he made haj and immediately after that he used to see some1 telling him in a dream that his haj is not accepted.
One day he related story to a pious Aalim who advised him to go back to Pakistan to visit his parents. The man flew to Pakistan and reached the boundary of the village. Everything had changed.


He could not find his house. He asked a small boy about the whereabouts of so and so.


The little boy directed the man to a house and said :"In this house lives an old blind lady who lost her husband a few months ago. She has a son who migrated to Saudi Arabia years back and never came back again.
What an unfortunate man ?"Son enters the home and finds his mother on the bed. He tip-toed as not to wake her up. He hears the mother whispering or mumbling something.


He gets closer to hear her voice. This is what the mother was saying :


"Ya Allah ! I am now very old and blind. My husband just died. There is no mahram to lower me in my grave when I die. So please send my son to fullfill my last wish."


"This is the ending of a story where the DUAA of a mother is accepted.

10 Ways to Improve Your Marriage


•> Pray together.
•> Compliment your spouse daily. •> Change yourself instead of trying to change your spouse.
•> Lower your expectations.
... •> Learn to enjoy each others company.
•> Accept each other’s flaws.
•> Don’t take each other for granted.
•> Refuse to hold a grudge.
•> Forgive often.
•> Respect each other.

چھننکنے والے کو جواب دینا۔




ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابن ابی لیلیٰ عیسیٰ ، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا


جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے الْحَمْدُ لِلَّهِ کہنا چاہئے


اور پاس والوں کو جواب میں يَرْحَمُکَ اللَّهُ کہنا چاہئے۔


پھر چھینکنے والے کو چاہئے کہ وہ ان کو جواب میں کہے۔


يَهْدِيکُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَکُمْ


(کہ اللہ تمہیں راہ راست پر رکھے اور تمہارے مال کو درست فرمائے) ۔


--------------------------------------------------




It was narrated from 'Ali that the Messenger of Allah(P.B.U.H) said: 


“If anyone of you sneezes, let him say: AI-Hamdu Lillah (praise is to Allah). 


Those around him should respond by saying: 


Yarhamuk-Allah (may Allah have mercy on you). 


And he should respond to them by saying: 


"Yahdikum Allahu wa yuslahu balakum 


(May Allah guide you and set right your state)." (Da'if)




--------------------------------------------------
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 595


حدیث مرفوع مکررات 4

ARE YOU THANKFUL?


When passing through a mountain pass, a bedouin (villager) once came across an old man who was blind and who seemed to be afflicted with various ailments all over his body. It was clear that he was wasting away. He was even paralyzed and was constantly forced to remain in a seated position. The Bedouin could clearly hear him say, "All praise is for Allah, Who has kept me safe from ailments with which He has tested many among His creation; and He has indeed preferred me over many among those that He created."


"My brother!" exclaimed the bedouin. "What have you been saved from? By Allah, I think that you have been afflicted with every single kind of ailment!"


"Go away from me," said the old man, as he raised his head. "Do I not still have a tongue with which I can pronounce His Oneness, and with which I can remember Him every single moment? And do I not still have a heart with which I can know Him?"


These words of the old man were enough for the bedouin to repent to Allah for his sins and ask Him for forgiveness.


REMEMBER THERE IS ALWAYS SOMEONE ELSE WHO IS IN MORE PROBLEM THAN YOU.


May ALLAH give us the ability to thank Him for the countless blessings which we keep looking beyond. Aameen

Friday, 23 March 2012

JummA Mubarak


░░░██░██░░██░██▄░▄██░██▄░▄██░░▄███▄░░██░██ ░░░██░██░░██░██▀█▀██░██▀█▀██░██▀░▀██░██▄██ ██░██░██░░██░██░░░██░██░░░██░███████░██▀██ ▀███▀░▀████▀░██░░░██░██░░░██░██░░░██░██░██

██▄░▄██░██░░██░█████▄░░▄███▄░░████▄░██░▄██ ██▀█▀██░██░░██░██▄▄█▀░██▀░▀██░██░██░████▀░ ██░░░██░██░░██░██░░██░███████░████▀░████▄░ ██░░░██░▀████▀░█████▀░██░░░██░██░██░██░▀██

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...