Sunday, 25 March 2012

Did you ever stop for a while and asked yourself?


Did you ever stop for a while and asked yourself,


what is going to happen to me the first night in my grave ?


Think about the moment your body is being washed and prepared to your grave


Think about the day people will be carrying you to your grave


And your families crying ...think about the moment you are put in your grave


Just imagine ...yourself in your grave
Down there in that dark hole
Alone
Its too Dark you cry for help
But.........
It is too narrow your bones are squashed
You regret missing 5 prayers ,you regret listening music ,you regret not wearing Hijab
You regret ignoring Allah 's orders
But no ESCAPE ......
You alone with your deeds
No money ,no jewelries, Only your deeds


May Allah (subhanahu wa ta'ala) protect us all from the punishment of the grave.Ameen

سُبْحَآن الله..,•¬------ღ◦˚°.




سُبْحَآن الله..,•¬------ღ◦˚°.
و الحَمْدُ لله..,•¬------ღ◦˚°..
و لا اله الا الله ..,•¬------ღ◦˚°..
و اللهُ أكْبَرْ ..,•¬------ღ◦˚°..
و لا حَوْلَ و لا قُوَةَ إلا بِالله..,•¬------ღ◦˚°..
لآ إلـ‗__‗ـه إلآ اللـ‗__‗ـه محمد رسول الله
أڛتغفر آللـﮧه آلذي لـآإ إلـﮧه إلـآإ هۈآلحي آلقيۈم ۈأتوب إليـﮧ


THE LEPER, BALD AND BLIND MAN




Hazrat Abu Hurairah (R.A.) relates that he heard the holy Prophet (Peace be upon him) say, Allah tested three persons from amongst Bani Israel, a leper, a bald headed man and a blind person. An angel was sent down to them in the form of a human being. 


He came to the leper and asked, “What is the thing you like the best?”, “a fine colour, neat skin and cure from this disease for which people hate me.” Came the reply. The angel ran his head over his body, his disease vanished and his body got a fine colour. Then the angel asked him what property he would like the best? The man said, “Camels or cows,” (the writer is doubtful). The man was given a she camel ten months pregnant and the angel said, “May Allah bless it for thee.”


Then the angel went to the bald headed man and asked the same. The man replied, “Beautiful hair and cure for the ailment, for which people hate me.” The angel ran his hand over his head and his disease was cured leaving him with beautiful hair. Then the angel asked him what property he would like the best? The man replied, “A cow.” Thus he was given a cow carrying a calf and the angel said, “May Allah bless it for thee.”


Then the angel came to the man that was blind and asked the same. He asked that Allah restore his sight so that he may see the people around him. The angel ran his hands over his eyes and his sight was restored. Then the angel asked him what property he would like the best? The man replied, “A goat.” Thus he was given a she goat carrying a kid.


These animals in due course gave birth to their kids multiplying very soon so that one had a valley full of cows, bulls and a third of the valley full of goats. 


After some time the angel visited the leper in his original form and said to him, “I am a poor and needy person, having spent all my means of sustenance in the course of my journey, I beg you, in the name of Allah, who has given you a decent colour and a neat skin and much wealth, to furnish me with a camel to enable me to complete my journey.” The man expressed his inability to oblige the angel and said, “I have many obligations to fufill. The angel said, “It appears as if I have seen you before. Are you not a leper, who shunned people and was poor, whom Allah enriched? The man said, “I have inherited this property from my ancestors. The angel said, “If you are speaking a lie, may Allah return you to the condition in which you were.”


This unfortunately occurred in the same manner with the bald man. Then the angel came to the man who was blind man repeating his request once more. The man said, “Indeed I was blind and Allah restored my eye sight. You may take what you will and leave what you like. By Allah I will not refuse you anything you may wish to take in the name of Allah, the Lord of honour and glory.


The angel said, “Keep all you have. All three of you were being tried. Allah is indeed pleased with you and is angry with your companions.” (Sahih Bukhari: Volume 4, Book 56, Number 670) 


May ALLAH make us be thankful for what HE has bestowed and grant us the ability to SPEND in charity for the Pleasure of ALLAH to those that are in NEED. Aameen

اپنی قیمت کا اندازہ لگائیے




ايک چھوٹا سا لڑكا دكان ميں داخل ہوكر كونے ميں لگے ٹيليفون كيبن كی طرف بڑھا۔
ٹيليفون ميں سكے ڈالنا تو اُس كيلئے ايک اچھا خاصا مسئلہ تھا ہی، بات كرنے كيلئے تو اُسے باقاعده سٹول پر كھڑا ہی ہونا پڑا۔


دكاندار كيلئے يہ منظر كافی متعجب کن تھا، اُس سے رہا نہ گيا اور لڑكے كی گفتگو سننے كيلئے اس نے اپنے كان اُدھر لگا ديئے۔


لڑكا کسی عورت سے مخاطب تھا اور اس سے کہہ رہا تھا: “ميڈم، آپ مجھے اپنے باغيچے كی صفائی ستھاائی اور ديكھ بھال كيلئے ملازم ركھ لیجئے”.


جبکہ عورت كا جواب تھاكہ”فی الحال تو اُس كے پاس اس كام كيلئے ايک ملازم ہے”.


لڑكے نے اِصرار كرتے ہوئے اُس عورت سے كہا كہ “ميڈم! ميں آپكا كام آپكے موجوده ملازم سے آدھی اُجرت پر كرنے كيلئے تيار ہوں”۔


اُس عورت نے جواب دیا كہ وه اپنے ملازم سے بالكل راضی ہے اور كسی قيمت پر بھی اُسے تبديل نہيں كرنا چاہتی”۔


اب لڑكا باقاعده التجاء پر ہی اُتر آيا اور عاجزی سے بولا كہ: “ميڈم، ميں باغيچے كے كام كے علاوہ آپکے گھر كے سامنے والے گزرگاہ اور فٹ پاتھ كی بھی صفائی کرونگا اور آپكے باغيچے كو فلوريڈا پام بيچ كا سب سے خوبصورت باغيچہ بنا دونگا”.


اور اِس بار بھی اُس عورت كا جواب نفی ميں تھا۔ لڑكے كے چہرے پر ايک مسكراہٹ آئی اور اُس نے فون بند كر ديا۔


دكاندار جو يہ ساری گفتگو سن رہا تھا اُس سے رہا نہ گیا اور وہ لڑكے كی طرف بڑھا اور اُس سے كہا: ميں تمہارى اعلٰی ہمتی کی داد ديتا ہوں، اور تمہاری لگن، مثبت سوچوں اور اُمنگوں كا احترام كرتا ہوں، ميں چاہتا ہوں كہ تم ميری اس دكان پر كام كرو”


لڑكے نے دكاندار كو كہا:”آپ كی پیشکش كا بہت شكريہ ، مگر مجھے كام نہيں چاہيئے، ميں تو صرف اِس بات كی تصديق كرنا چاہ رہا تھا كہ ميں آجكل جو كام كر رہا ہوں كيا اُس كا معيار قابلِ قبول بھی ہے يا نہيں؟
اور ميں اِسی عورت كے پاس ہی ملازم ہوں جِس كے ساتھ ميں ٹيليفون پر گفتگو كر رہا تھا”




اگر آپكو اپنے شخصیت / کردار اور كام كے معيار پر بھروسہ ہے تو پھر اُٹھائيے ٹيليفون اور پركھيئے اپنے آپكو! ( مطلب یہ کہ اپنا احتساب کیجئے ! اور جہاں کمی ہو اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کیجئے ! )

قرآن مجید میں عیب جوئي کی مذمت :


قرآن مجید عیب جو حضرات کو برے انجام سے ڈراتے ھوئے ان کی اس بری عادت کا نتیجہ بتاتا ھے ؛


” ویل لکل ھمزة لمزة “ 
(۱ ) ھر طعنہ دینے والے چغلخور کے لئے ویل ھے ۔
(سورة الهُمَزَة)


عیب جوئی:
--------------- 
کچھ لوگوں میں ایک منحوس عادت یہ ھوتی ھے کہ وہ ھمیشہ دوسروں کی لغزشوں اور بھیدوں کی تلاش میں رھا کرتے ھیں تاکہ ان لوگوں پر نقد و تبصرہ کریں ان کا مذاق اڑائیں ان کی سر زنش کریں ، حالانکہ خود ان لوگوں کے اندر اتنے عیوب ھوتے ھیں اور اتنی کمیاں ھوتی ھیں جو کم و کیف کے اعتبار سے ان کے فضائل پر غالب ھوتی ھے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اپنے عیوب سے غافل ھو کر دوسروں کے عیوب تلاش کرتے رھتے ھیں ۔


عیب جو حضرات اپنے جانے پھچانے دوستوں کے اعمال کے تجسس میں لگے رھتے ھیں کہ دوسروں کی کوئی بھی کمزوری ان کے ھاتہ لگ جائے تو اسی کو لے اڑیں اور دوستوں پر نقد وتبصرہ کے ساتھ ان کو بد نام کرتے پھریں اور جس قدر بھی ممکن ھو دوستوں کو لوگوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا کریں ۔


اور چونکہ یہ لوگ دوسروں کی عیب جوئی میں لگے رھتے ھیں لھذا ان کو اتنی فرصت بھی نھیں ملتی کہ اپنے عیوب کو تلاش کرسکیں اور اسی لئے اس قسم کے لوگ زندگی کی ھدایت و اصلاح کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ اصولا ً اس قسم کے لوگ بز دل ھوتے ھیں ۔ یہ لوگ اپنے سے قریب ترین شخصوں کے ساتھ بھی خلوص نھیں برت سکتے ۔ اسی لئے جھاں یہ لوگ دور کے لوگوں کے عیوب بیان کرتے ھیں وھاں موقع ملنے پر قریب ترین دوستوں کی بھی برائی بیان کرنے لگتے ھیں اور یھی وجہ ھے کہ ایسے لوگوں کو ایسے سچے دوست نھیں مل پاتے جو واقعی دوست ھوں اور اس کی محبت کے زیر سایہ وہ اپنے جذبات کو سکون عطا کر سکیں ۔


جو شخص لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاھتا ھے اس کی ذمہ داری ھے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے یعنی ھمیشہ لوگوں کی خوبیوں پر نظر رکھے ، ان کے نیک اعمال کو اپنے ذھن میں رکھے اور ان کے اچھے اخلاق و اچھے کردار کی قدر دانی کرے ۔ جن عادتوں یا صفتوں سے دوسروں کی شخصیت مجروح ھوتی ھو اور جو باتیں اصول کی مخالف ھوں ان سے اجتناب کرے ۔ کیونکہ محبت کو دوام محبت ھی سے ملتا ھے ۔پس جو شخص اپنے دستوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کا عادی ھو گا اس کی محبت باقی رھے گی اور اس کی محبت کو دوام حاصل ھو گا ۔


لھذا اگر کسی دوست میں کوئی کمزوری دیکھو تو اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنے کے بجائے کسی مناسب موقع پر اس کو اس بات کی طرف بھت خوش اسلوبی سے متوجہ کر دو ۔


یہ بات بھی قابل توجہ ھے کہ اگر دوست کی کسی کمی پر اس کو متوجہ کرنا ھے تو اس میں بھی بڑی مھارت کی ضرورت ھے اس کو ایسی خوش اسلوبی سے متوجہ کیجئے کہ اس کو تکلیف نہ پھنچے اس کے احساسات و جذبات کو ٹھیس نہ لگے ۔


ایک مربی اخلاق کا کھنا ھے : تمھارے لئے یہ ممکن ھے کہ اپنے مخاطب ( دوست ) کو اشارے یا کسی ، حرکت کے ذریعے اس کی غلطی پر متوجہ کردو، اس سے گفتگو کرنے کی ضرورت نھیں ھے ۔ کیونکہ اگر تم نے اپنے دوست سے یہ کھہ دیا کہ تمھارے اندر یہ کمی ھے تو تم نے ڈائریکٹ یہ بات کھہ کر اس کی عقل و فکر پر حملہ کیا ھے اس کی خود پسندی کو مجروح کیا ھے ۔ 


گفتگو کرتے وقت کسی صورت میں اس سے اس طرح گفتگو کی ابتداء نہ کیجئے : میں آپ کی غلطی کو ثابت کردوں گا میرے پاس اس کے لئے مضبوط دلیلیں ھیں ! کیونکہ اس قسم کی گفتگو کا مفھوم یہ ھے کہ آپ اس سے زیادہ عقلمند ھیں ۔ لوگوں کے افکار کی اصلاح عام حالات میں دشوار ھوتی ھے ، اگر کسی نکتہ کو ثابت ھی کرنا چاھتے ھوں تو پھلی بات یہ ھے کہ اس پر کسی کو مطلع نہ کیجئے اور اتنی ھوشیاری و مھارت سے اس کام کو انجام دیجئے کہ کوئی سوچ بھی نہ سکے کہ آپ کا مقصد کیا ھے لوگوں کو اس طرح تعلیم دو کہ کوئی تم کو معلم نہ سمجھے ۔




ھم خود اپنے بھت سے عیوب سے چشم پوشی کرتے ھیں اور ان عیوب پر غفلت و تجاھل کا پردہ اس لئے ڈالتے ھیں تاکہ اپنے نفس کو دھوکہ دے سکیں ۔ سب سے زیادہ اس پر تعجب ھے کہ ھم اپنے عیبوں کی اصلاح کرنے کے بجاۓ ان کو لوگوں کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ھیں ،


اگر ہم چاھتے ہیں کہ ہمارے عیب کسی کے سامنے ظاہر نہ ہوں تو ہمیں بھی لوگوں کی عیب جوئی سے باز آ نا چاہیے !

ہمیں اهل بيت اور صحابه کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے پیار ہے!




عراق کا بادشاہ ملک فیصل (اول) گہری نیند میں تھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ کوئی اس سے کہہ رہا تھا۔ ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی دریائے دجلہ کے کنارے دفن ہیں۔ دریا کا رخ تبدیل ہورہا ہے۔ پانی ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک میں پانی آچکا ہے جبکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر بھی نم ہونے لگی ہے ہمیں یہاں سے نکال کر دریا کے کنارے سے کچھ فاصلے پر دفن کیا جائے۔“


عراق کے بادشاہ نے یہ الفاظ خواب میں سنے لیکن ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ دوسری رات پھر یہی الفاظ سنائی دئیے لیکن اس نے اب بھی توجہ نہ دی۔


تیسری رات یہ خواب عراق کے مفتی اعظم ”نوری السعید پاشا‘ ‘ کو دکھائی دیا۔ انہوں نے اسی وقت وزیراعظم کو ساتھ لیا اور بادشاہ کی خدمت میں پہنچ گئے جب انہوں نے بادشاہ سے اپنا خواب بیان کیا تو بادشاہ چونکا اور بولا: ”یہ خواب تو میں بھی دوبار دیکھ چکا ہوں“


اب انہوں نے مشورہ کیا آخر بادشاہ نے مفتی اعظم سے کہا پہلے آپ قبروں کو کھولنے کا فتویٰ دیں تب میں اس خواب کے مطابق عمل کروں گا۔


مفتی اعظم نے اسی وقت قبروں کو کھولنے اور اس میں سے نعشوں کو نکال کر دوسری جگہ دفن کرنے کا فتویٰ جاری کردیا اب یہ فتویٰ اور شاہی فرمان اخبارات میں شائع کردئیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ عیدقربان کے دن دونوں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبریں کھولی جائیں گی۔


اخبارات میں جوں ہی یہ خبر شائع ہوئی تو دنیائے اسلام میں بجلی کی طرح پھیل گئی۔ اخبارات کی دنیا اس خبر کو لے اڑی اور مزے کی بات یہ کہ یہ حج کے دن تھے۔ تمام دنیا سے مسلمان حج کیلئے مکہ اور مدینہ میں پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے درخواست کی کہ قبریں حج کے چند روز بعد کھولی جائیں تاکہ وہ سب بھی اس پروگرام میں شرکت کرسکیں۔ اسی طرح حجاز‘ مصر‘ شام ‘ لبنان‘ فلسطین‘ ترکی‘ ایران‘ بلغاریہ‘ روس‘ ہندوستان وغیرہ ملکوں سے شاہ عراق کے نام سے بے شمار تار پہنچے کہ ہم بھی اس موقع پر شرکت کرنا چاہتے ہیں‘ مہربانی فرما کر مقررہ تاریخ چند روز آگے بڑھا دی جائے۔


چنانچہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی خواہش پر دوسرا فرمان یہ جاری کیا گیا کہ اب یہ کام حج کے دس دن بعد کیا جائے گا۔


آخر کار وہ دن بھی آگیا جب قبروں کو کھولنا تھا‘ دنیا بھر سے مسلمان وہاں جمع ہوچکے تھے۔ پیر کے دن دوپہر بارہ بجے لاکھوں انسانوں کی موجودگی میں قبروں کو کھولا گیا۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر میں کچھ پانی آچکا تھا جبکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر میں نمی پیدا ہوچکی تھی اگرچہ دریائے دجلہ وہاں سے دو فرلانگ دور تھا۔


تمام ممالک کے سفیروں‘ عراقی حکومت کے تمام ارکان اور شاہ فیصل کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اوپر اٹھایا گیا کہ ان کی نعش کرین پر رکھے گئے سٹریچر پر خودبخود آگئی۔ اب کرین سے سٹریچر کو الگ کرکے شاہ فیصل‘ مفتی اعظم‘ وزیر جمہوریہ ترکی اور شہزادہ فاروق ولی عہد مصر نے سٹریچر کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور نہایت احترام کے ساتھ ایک شیشے کے تابوت میں رکھ دیا۔پھر اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش کو نکالا گیا۔ دونوں نعشوں کے کفن بالکل محفوظ تھے یہاں تک کہ ڈاڑھی مبارک کے بال بھی صحیح سلامت تھے۔ نعشوں کو دیکھ کر قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ تیرہ سو سال پہلے کی ہیں بلکہ یوں گماں گزرتا تھا انہیں وفات پائے ابھی مشکل سے دو تین گھنٹے ہوئے ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ دونوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ ان میں اس قدر تیز چمک تھی کہ دیکھنے والے ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ نہ سکے۔بڑے بڑے ڈاکٹر یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ان میں ایک جرمن آئ سپیشلسٹ بھی تھا وہ یہ سارامنظردیکھ کر اتنا متاثر ھوا کہ اسی وقت مشرف بہ اسلام ھوگیا....سبحان اللہ

Saturday, 24 March 2012

MESSAGE TO PONDER UPON......




A poor couple who lived in a small village in Pakistan. They had only one son. Gave him the best education.


Son graduates as an Engineer in the nearby city. Eventually, got married to a rich girl. Initially, they lived with his parents in the village. Soon the wife got tired of village life and persuaded the husband to move to the city leaving the old parents in the village.


As time went the husband seen an advert in the newspaper about a vacancy in Jeddah. He was successful and lived in Jeddah for years with his wife. Regularly he used to send money to parents.
Eventually with time he stopped and forgot about his parents ever existed.


Every year he made haj and immediately after that he used to see some1 telling him in a dream that his haj is not accepted.
One day he related story to a pious Aalim who advised him to go back to Pakistan to visit his parents. The man flew to Pakistan and reached the boundary of the village. Everything had changed.


He could not find his house. He asked a small boy about the whereabouts of so and so.


The little boy directed the man to a house and said :"In this house lives an old blind lady who lost her husband a few months ago. She has a son who migrated to Saudi Arabia years back and never came back again.
What an unfortunate man ?"Son enters the home and finds his mother on the bed. He tip-toed as not to wake her up. He hears the mother whispering or mumbling something.


He gets closer to hear her voice. This is what the mother was saying :


"Ya Allah ! I am now very old and blind. My husband just died. There is no mahram to lower me in my grave when I die. So please send my son to fullfill my last wish."


"This is the ending of a story where the DUAA of a mother is accepted.

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...