کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجنوں کسی کتے کو پکڑ کر پیار کر رہا تھا اور بار بار چوم رہا تھا۔ ایک عقلمند نے دیکھا تو اس کے پاس گیا اور کہا کہ ارے مجنوں ! یہ کتا ہے ، نجس اور ناپاک جانور۔ اور تم اس کو چومے جا رہے ہو۔ تو مجنوں نے اس عقلمند کو جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کتا ہے ، نجس اور ناپاک جانور۔ لیکن تم نے دیکھا نہیں کہ یہ لیلٰی کی گلی سے ہو کر آیا ہے ۔ میں تو اس کو اس لئے چوم رہا ہوں کہ یہ لیلٰی کی گلی کا کتا ہے اور اس کو میرے محبوب کی گلی سے نسبت مل گئی ہے۔
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
خیر یہ تو تھی عشق مجازی کی داستان۔۔۔ اور وہ بھی مجنوں کی۔۔۔ میرے خیال میں اس کے لئے اس سے بہتر لقب نہیں مل سکتا کیونکہ وہ واقعی مجنوں تھا۔۔۔ لیکن
حیرت کی بات ہے کہ یہ عشق مجازی ہے کہ جس کی راہ میں دور دور تک عقل کا گزر نہیں۔ اور ہم ہیں کہ عشق حقیقی کو عقل کے پیمانوں سے ماپنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لئے عقل کی ایجاد کردہ ڈکشنریاں استعمال کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ لفظ عشق پاکیزہ تاثر نہیں دیتا اس لئے اس لفظ کو محبت رسول صل اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال نہیں کرنا چا ہیئے ۔ تو میرے بھائی یہ صرف ایک غلط فہمی ہے۔
اب دوسری طرف چلے جائیں اور عاشقوں کے سردار حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، صحرا میں اونٹنی کی مہار پکڑ کر اس کو گول گول گھما رہے ہیں۔ ایک عقلمند نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ تو معلوم نہیں کہ کیا کر رہا ہوں لیکن ایک دفعہ اپنے آقا و مولا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا میں تو وہی ادائے عشق دہرا رہا ہوں۔
یہ ایک نہیں اس طرح کے ہزاروں واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے اور صحا بہ کرام کے مہکتے گلشن کا ہر ہر پھول عشق نبی کی خوشبو بکھیر رہا ہے۔
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
خیر یہ تو تھی عشق مجازی کی داستان۔۔۔ اور وہ بھی مجنوں کی۔۔۔ میرے خیال میں اس کے لئے اس سے بہتر لقب نہیں مل سکتا کیونکہ وہ واقعی مجنوں تھا۔۔۔ لیکن
حیرت کی بات ہے کہ یہ عشق مجازی ہے کہ جس کی راہ میں دور دور تک عقل کا گزر نہیں۔ اور ہم ہیں کہ عشق حقیقی کو عقل کے پیمانوں سے ماپنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لئے عقل کی ایجاد کردہ ڈکشنریاں استعمال کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ لفظ عشق پاکیزہ تاثر نہیں دیتا اس لئے اس لفظ کو محبت رسول صل اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال نہیں کرنا چا ہیئے ۔ تو میرے بھائی یہ صرف ایک غلط فہمی ہے۔
اب دوسری طرف چلے جائیں اور عاشقوں کے سردار حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، صحرا میں اونٹنی کی مہار پکڑ کر اس کو گول گول گھما رہے ہیں۔ ایک عقلمند نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ تو معلوم نہیں کہ کیا کر رہا ہوں لیکن ایک دفعہ اپنے آقا و مولا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا میں تو وہی ادائے عشق دہرا رہا ہوں۔
یہ ایک نہیں اس طرح کے ہزاروں واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے اور صحا بہ کرام کے مہکتے گلشن کا ہر ہر پھول عشق نبی کی خوشبو بکھیر رہا ہے۔