اگر دین پر عمل نہیں کر سکتے تو مذاق اڑانے کا حق کس نے دیا ؟ !
افسوس! آج کفار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بھی اسلام کو تختہ مشق بنا لیا ہے، اب میں اسے کفار کی سازش کہوں کہ اپنوں کی نادانی؟ کسی کا بس چلتا ہے تو وہ آیات کو گانوں میں استعمال کرتا ہے، کویٔ احادیث پر چٹکلے (Jokes) شیٔر کرتا ہے تو کویٔ نماز کی نیت پر بریانی کھانے اور بینک لوٹنے کی نیت بنا کر اللہ کے غضب کے مستحقین میں اپنا نام درج کراتا ہے۔ مذاق کرنے اور مذاق اڑانے میں بہت فرق ہے ، دنیا میں اور بہت سے موضوع ہیں ، ان پر شوق سے لطائف بنائیے مگر خدارا مذہب کو ایسی جھوٹی باتوں سے دور رکھئیے !
اس لطیفے ہی پر غور کیجٔے ۔ اس میں صدقے کو کمزور ثابت کر کے اسکا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ بعض لوگوں کو ایسے لطائف شئیر کرنے پر سمجھایا تو انہوں نے وقتی طور پر تو اتفاق کیا مگر بعد میں اسی طرح مذاق اڑاتے نظر آئے ، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایسی بات کوئی جاہل انسان کرتا نظر آئے تو اسے علم کی کمی کی کا بہانہ بنا کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے مگر یہاں تو پڑھے لکھے افراد ایسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انھیں اپنے اس فعل پر کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی !
اسے کہتے ہیں پڑھی لکھی جہالت !!!
میری دل سے دُعا ہے کہ اگر کویٔ جان بوجھ کر ایسی چیزیں بناتا ہے اور شیٔر کرتا ہے اللہ تعالٰی اُسے ہدایت عطافرما ۔ اور انہی لوگوں کے گھروں میں ایسی نیک اولاد پیدا فرما جو دین پر اتنی پختگی سے عمل کر ےکہ ایسے کند ذہن لوگوں کو شرم آئے اور وہ اپنے ایسے ہرغلط فعل سے تائب ہو جائیں اور ایک اچھے مسلمان بن جائیں !
آمین يارب العالمين
میری ہر پڑھنے والے سے گذارش ہے کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیٔر کریں اور آیٔندہ کسی بھی ایسے چٹکلے (Jokes)کو شیٔر نہ کریں جس میں نماز، روزہ، حج، جہاد، جنت، دوزخ ، فرشتوں ، داڑھی، مولانا، مسجد، مزار یا کسی اور چیز کا مذاق اُڑایا گیا ہو !!!
باز آ جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو الله آپ کو ہی دنیا میں مذاق بنا دے !
اللہ تعالٰی ہماری خطایٔں معاف فرماۓ اور ہمیشہ کے لیے ہم سے راضی ہو جاۓ۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔
آخر میں نکاح اور صدقے سے متعلق چند احادیث پیش کروں گا کہ انکا ذکر اس چٹکلے میں آیا ہے۔
" احادیث مبارکہ "
1۔ ۔''بیشک صدقہ رب عزوجل کے غضب کو بجھاتا اور بُری موت کو دفع کرتا ہے ''۔
اسے ترمذی اورابن حبان نے اپنی صحیح میں انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ، ترمذی نے اسکو حسن قرار دیا ہے.
(سنن الترمذی، کتاب الذکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ، ج۲، ص ۱۴۶، الحدیث:۶۶۴، دار الفکر، بیروت)
2۔ ۔ “دوزخ کی آگ سے بچو اگرچہ آدھا چھوہارا دے کر کہ وہ ٹیڑھے پن کو سیدھا اور بُری موت کودور کرتا ہے'' الحدیث۔ ابویعلی اور بزار نے اسے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا.
(مسند أبي یعلی، مسند أبي بکر الصدیق ، ج ۱، ص ۵۸، الحدیث۸۰، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
3۔ ۔ “بے شک مسلمان کاصدقہ عمر کو بڑھاتا ہے اور بُری موت کو روکتا ہے ''
اسے طبرانی اور ابوبکر بن مقیم نے اپنی جزء میں عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا
(المعجم الکبیر، ج۱۷ ص۲۲، ۲۳، رقم الحدیث۳۱، المکتبۃ الفیصلیۃ، بیروت)
4۔''صدقہ بُرائی کے ستّر دروازے بند کر دیتا ہے''۔
اسے طبرانی نے کبیرمیں رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا.
(المعجم الکبیرللطبرانی ، ج۴، ص۲۷۴، الحدیث ۴۴۰۲، المکتبۃ الفیصلیۃ ، بیروت)
5۔''صدقہ ستّر قسم کی بلا ؤں کو روکتا ہے جن میں آسان تر بلا، بدن بگڑنا(کوڑھ کی بیماری) اور سفید داغ ہیں''۔
اسے خطیب نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا.
(تاریخ البغداد ، باب ذکر من اسمہ الحارث، الحارث بن النعمان ، ج۸ ، ص۲۰۴، رقم الترجمۃ ۴۳۲۶، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
6۔ ۔ ''صبح سویرے صدقہ دو کہ بلا صدقہ سے آگے قدم نہیں بڑھاتی'' ۔ اسے طبرانی نے امیر المومنین حضرت علی اوربیہقی نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا.
( المعجم الأوسط، باب المیم من اسمہ محميد ، ج۴ ،ص ۱۸۰، الحدیث ۵۶۴۳، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
7۔ ۔ "صدقہ گناہ کو ایسے ہی بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے''۔
اسے ترمذی نے روایت کیا اورحسن صحیح کہا معاذ بن جبل سے اور ایسے ہی ابن حبان نے اپنی صحیح میں کعب بن عجرہ سے ، اسی طرح ابویعلٰی نے بسندِ صحیح جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اور ابن مبارک نے عکرمہ سے مرسلاً بسند حسن روایت کیا ۔
8۔ ۔ ''مسلمان اور ایمان کی کہاوت ایسی ہے جیسے چراگاہ میں گھوڑا اپنی رسّی سے بندھا ہوا کہ چاروں طرف چر کر پھر اپنی بندش کی طرف پلٹ آتا ہے ، یوں ہی مسلمان سے بُھول ہو جاتی ہے پھر ایمان کی طرف رجوع لاتاہے تو اپنا کھانا پرہیزگاروں کو کھلاؤ اوراپنانیک سلوک سب مسلمانوں کو دو''۔ اسے بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت کیا۔
("شعب الإیمان" ، ج۷، ص۴۵۲، الحدیث۱۰۹۶۴، )
9۔ ۔ "حضرتِ سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: "نکاح میری سنت سے ہے ، پس جو شخص میری سنت پر عمل نہ کرے ، وہ مجھ سے نہیں۔ پس نکاح کرو ، کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بناء پر دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔"
(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح، باب ماجاء فی فضل النکاح،الحدیث ۱۸۴۶ج۲،ص۴۰۶)
اللہ اس سے پہلے ایماں پہ موت دے دے
نقصاں میرے سبب سے ہو سنت نبی کا
(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلّم)
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم