”جس کے دل میں یہ احساس ہو کہ یہ بیوی کھانے پکانے کی جو خدمت انجام دے رہی ہے یہ اس کا حسن سلوک اور حسن معاملہ ہے جو میرے ساتھ کر رہی ہے تو وہ اس کے کھانے پکانے کی تعریف کریگا اس کی ہمت بندھائے گا۔ اس کا حوصلہ ہو پائیگا“ لیکن جوشخص اپنی بیوی کو نوکرانی یا خادمہ سمجھتا ہواور کھانا پکانا اسکی ذمہ داری سمجھتا ہو۔ ایسا شخص کبھی اچھے کھانے پکانے پر بھی اپنی بیوی کی تعریف نہیں کرے گا اور نمک کی زیادتی یا چینی کی کمی پر ہی گھر میں قیامت برپا کردے گا اور لمباچوڑا جھگڑا شروع کردیگا۔
عورت فطری طور پر نرم دل ہوتی ہے تھوڑی سی تعریف پر پھولے نہیں سماتی آئندہ اسی کام کو (جس کی تعریف ہوئی ہے)اور مزید اچھا کرکے دکھاتی ہے۔
لہٰذا ہر چیز مثبت انداز میں بیوی کوسمجھا یئے جتناکام ہو اس پر اس کی تعریف کریں جو عیب یا کوتاہی باقی رہ گئی اس طرح سمجھائیں کہ آئندہ ایسا نہ ہو اوروہ آج سے ہی معمول بنالیں کہ چھوٹے موٹے کام پر بیوی کے چائے پکانے پر، پانی کے گلاس پیش کرنے پر ا س کو جزاک اللہ خیرا(اللہ تعالیٰ تمہیں اس کام کا اجر عطاء فرمائے )کہے دل وزبان سے شکر گزار بنئے پھر دیکھئے بیوی بھی آپ کی کیسی قدر دان بنتی ہے یاد رکھئے انسان فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ اس کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ اور حوصلہ افزائی کی خواہش زیادہ جب ہی ابھرتی ہے جبکہ اس کی اعلانیہ حوصلہ شکنی کی جارہی ہو خصوصاً دیورانی ، جیٹھانی ، نند وغیرہ مسلسل اس کے کاموں میں رخنہ ڈال رہی ہوں اور ذرا ذرا سی بات پر اس کی پکڑ کی جاتی ہو یہ برعکس اس کے کہ اس کے کام کی ستائش کی جاتی ہے اور اس کو شاباش کیا جاتا یا ایک لفظ شکر یہ کا ادا کہا جاتا اس طرح حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے تنقید سے آدمی اکثر ہمت ہار بیٹھتا ہے اور اس کی تمام صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں ہر حال بیوی کے کاموں کی تعریف کیجئے اور حوصلہ افزائی کیجئے سوانشاء اللہ عزوجل آپ کو دوسری طرف سے پورا تعاون حاصل ہوگا۔
تعر یف کے سا تھ خو شا مد بھی کر یں
کبھی بیوی کے کھانے پکانے پر تعریف کردیں، کبھی اس کے لباس کی تعریف کردیں، کبھی اس کے حسن و جمال کی تعریف کر دیں ۔ یہ مت سمجھیں کہ کھانا پکانا ، کپڑے استری کرنا یا گھر کے دیگر کام کاج کرنا تو اس کی ذمہ داری ہے، میں کیوں تعریفیں اور خوشامد یں کرتا پھروں ، یہ کام تو ساری بیگمات کرتی ہیں یہ کوئی آسمان سے اتری ہے کہ ان کاموں پر بھی اس کی تعریفیں اور واہ کی جائے۔
نہیں ، یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ اس طرح آپ اپنی بیوی کی محبت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اِزدواجی زندگی پر خوشیوں کی بارش ہو تو آپ کواس کی تعریف کے دو بول ضرور کہنے چاہیں ۔ آپ یقین جانیے کہ آپ کے یہ دوبول سن کر اس کے سارے دن کے کام کاج سے ہونے والی تھکاوٹ دور ہوجائے گی اور آپ بھی اسے اپنے سامنے تروتازہ پھول کی طرح محسوس کریں گے ۔ علاوہ ازیں تعریف کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنا کام پہلے سے اور اچھا کرنے کی کوشش کرے گی ۔
بیوی کو خادمہ نہیں محبوبہ سمجھیں
اگر چہ آپ کی خدمت اور اطاعت کرنا آپ کی بیوی کے فرائض میں شامل ہے لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ اسے خادمہ سمجھ لیں اور ایک باندی یا نوکرانی کی طرح ہروقت حکم پر حکم دیتے رہیں ۔ اس طرح وہ آپ کی خدمت سے اُکتا جائے گی ۔ آپ کے اس حاکمانہ رویے سے تنگ آجائے گی اور پھر آہستہ آہستہ اس رویے کے خلاف ردعمل بھی ظاہر کرے گی ۔ حکم عدولی اور نافرمانی بھی کرے گی ۔ نتیجة ً گھر میں آئے دن لڑائی جھگڑے کی فضا پیداہوتی رہے گی ۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیوی آپ کی مطیعِ فرمان رہے ، آپ سے محبت کرے ، آپ کاکہا مانے ، آپ کے اشاروں پر چلے ، تو پھر آپ اسے خادمہ نہیں بلکہ اپنی محبوبہ سمجھیں ۔ محبوبہ کی طرح اس سے برتاوٴ کریں ۔ چھوٹے موٹے کام اسے کہنے کی بجائے خودہی کرلیا کریں ۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک وقت آئے گا کہ آپ کوا پنی بیوی سے یہ پوچنے کی نوبت بھی نہ آئے گی کہ فلاں کام ہو ایا نہیں ۔ کیونکہ جب آپ اپنی بیوی کا خیال رکھیں گے ، اسے بھی اپنی طرح انسان سمجھیں گے تو وہ بھی آپ کی ہر چیز کا خیال رکھے گی۔
بیوی کو راحت بھی دیں
ہمارے معاشرے میں ایک عورت کو شاد ی کے بعد خاوند کی خد مت بھی کرنا پڑتی ہے اور خاوند کے تمام گھر والو ں کی بھی ۔ بلکہ شادی کے بعد خاوند کی ماں اور بہنیں یہ سمجھتی ہیں کہ اب بہو گھر میں آگئی ہے تو ہمیں کام کاج کی آخر کیا ضرورت ۔ سارے گھر کا بوجھ ایک جان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جہاں ایک دن کاکام چار عورتیں کرتی تھیں ، وہ اب اکیلی بہو کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بھی انسان ہے، اس کا بھی کوئی مقام ہے، وہ نوکرانی نہیں بلکہ بہو ہے ۔ جتنی اس کی استطاعت ہے اس سے بڑھ کر وہ کام نہیں کرسکتی اور جب بچے ہو جائیں تو اسے بچے بھی سنبھالنے ہیں ۔
ایسے موقع پر دیندار ساس تو مناسب طریقے سے کاموں کی ذمہ داریاں تقسیم کردیتی ہے لیکن اکثر ساسیں ایسا نہیں کرتیں بلکہ بات بات پر بہو کے کیڑے نکالتی ہیں ، اسے کوستی رہتی ہیں ۔ ایسے حالات میں اب یہ خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات میں توازن قائم کرے ۔ اپنی بیوی کے لیے راحت اور آرام کا موقع بھی پیدا کرے ۔ اگر خاوند بھی بے جا بیوی کو کوسے اور گھر والوں کی ہاں میں ہاں ملائے تو یہ بیوی پر ظلم ہے۔ اس سے زندگی کی گاڑی خوشگوار طریقے سے نہیں چل سکتی.