Monday 28 May 2012

جاگو مسلمانو اور اپنے اصل دشمن کو پہچانو ! !

سابق برطانوی جاسوس ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں اسلامی دنیا میں فرقہ ورانہ فساد کرانے کے انکشافات کر رهے هیں یہ کتاب جاسوس ہمفرے کی ڈائری ہے جس میں اس نے نہ صرف اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ برطانیہ کے وزارت نو آبادیات کے منشور، مقاصد اور منصوبوں کو بھی بے نقاب کیا ہے اس کتاب میں ہمفرے جاسوس بتا رہا ہے کہ برطانیہ نے کس طرح مسلمانوں کو تقسیم کیا اور ان میں مذہبی اختلافات بوئے اور انہیں آپس میں ہی لڑا دیا تاکہ وہ بریلوی اور دیوبندی بن کرلڑتے رہیں۔

سنڈے ٹائمز میں پانچ مئی 2002 کو خبرچھپی تھی کہ کئی درجن برطانوی مشنریوں کو خفیہ سرگرمیوں کے لئے مختلف حیلے بہانے سے مسلمان ممالک میں بھجوایا جارہا ہے۔ ان کو وہاں مختلف نوکریاں لے کردی جارہی ہیں تا کہ وہ ان کی آڑ میں خفیہ کام کرسکیں“ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو مسلمان ممالک میں بھجوانے سے پہلے اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگوں میں گھل مل سکیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی خفیہ ایجنٹ نے وطن واپس پہنچ کر انکشاف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک مسجد کا امام رہا۔ آپ کو وہ پرانا واقعہ یاد ہوگا کہ گوجرانوالہ کے علاقے سے ” را “ (RAW) کا ایک ہندو ایجنٹ پکڑا گیا تھا جو کئی سا ل سے امام مسجد کے فرائض سرانجا م دے رہا تھا اور لوگوں کو مذہبی فرقہ بندی کے ذریعے بھڑکاتا تھا۔ مختصر یہ کہ مسلمان ساہ لوح لوگ ہیں اور آسانی سے فرقہ بندی کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے غیرممالک کے خفیہ ایجنٹ داخل ہو کر مسلمانوں میں منافرت پھیلاتے اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔

جاسوس ہمفرے کو انگلستان کی وزارت برائے نوآبادیاتی علاقوں نے 1710 میں مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت میں جاسوسی پر مامور کیا ہمفرے کے اپنے الفاظ کے مطابق ”مجھے ان علاقوں میں وہ راہیں تلاش کرنی تھیں جن سے مسلمانوں کو درہم برہم کر کے مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کیا جا سکے ۔ میرے ساتھ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے نو اور بہترین تجربہ کار جاسوس اسلامی ممالک میں اس کام پر مامور تھے اور بڑی تندہی سے انگریز سامراج کے اثر و نفوذ اور استحکام کیلئے سرگرم عمل تھے۔ ان وفود کو وافر سرمایہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ حضرات مرتب شدہ نقشوں اور تازہ اطلاعات سے بہرہ مند تھے۔ ان کو امراء، وزراء، حکومتی اعلیٰ عہدیداروں، علماء اور روساء کے ناموں کی مکمل فہرست دی گئی تھی۔

میرے ذمے دو اہم کام تھے اول ترکی زبانی پر عبور حاصل کرنا اور اس کے بعد عربی زبان، قرآن اس کی تفسیر اور پھر فارسی سیکھنا اور مہارت کے اعتبار سے اس پر پوری دسترس حاصل کرنا تاکہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں کوئی فرق محسوس نہ ہو ۔

ہمفرے استنبول (قسطنطنیہ) پہنچا، بحری جہاز سے اترنے سے پہلے اپنا نام محمد رکھا اور شہر کی جامع مسجد میں داخل ہو گیا ۔ پھر اس نے شہر کے ایک نیک اور بزرگ عالم احمد آفندی سے تعلقات استوار کئے ۔ ”احمد آفندی دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی کا مطمع نظر بنائے ہوئے تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ میں غریب الوطن اور یتیم ہوں اور عثمانی سلطنت کیلئے کام کر رہا ہوں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشین ہے تو وہ مجھ پر مہربان ہو گیا۔“ شیخ سے ہمفرے نے جس طرح عربی، قرآن، تفسیر اور تجدید پڑھی، اس میں دو برس لگ گئے کس طرح ہمفرے راتیں مسجد میں سو کر گزارتا تھا شیخ کو جب معلوم ہوا ہمفرے غیر شادی شدہ ہے تو اس نے اسے شادی کا مشورہ دیا اور اس مقصد کے لئے اپنی ہی بیٹی کا انتخاب کیا لیکن ہمفرے نے نہایت مودبانہ انداز سے انکار کر لیا

استنبول میں دو سال قیام کے دوران ہمفرے ہر ماہ رپورٹ بھجواتا رہا۔ پھر اس کی وزارت نے اسے مزید تربیت لے کر کسی اور مسلم ملک میں فرائض کی سرانجام دہی کے لئے بھیج دیا جائے۔ لندن میں اس کی وزارت نے ہمفرے کو کہا ” آئندہ کے لئے تمہیں دو اہم باتوں کا خیال رکھنا ہے۔

(1) مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں میں پھوٹ ڈالنے میں مددگار ثابت ہوں

(2) کمزوریاں جان لینے کے بعد تمہارا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔


ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں لکھا ہے کہ اسے نو آبادیاتی وزارت کی طرف سے حکم ملا کہ وطن کی خدمت کے لئے ہر قسم کا کام کر گزرو۔ مطلب یہ کہ جاسوسی کی دنیا میں اخلاقیات نامی کوئی شے نہیں ہوتی اور اس میدان میں مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جائز سمجھے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے برطانوی انٹیلی جنس کو کس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب کیا، اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔

لندن میں جب ہمفرے اپنی وزارت کے سیکرٹری سے ملا تو سیکرٹری نے میری رپورٹ کو بہت سراہا تاہم عثمانی حکومت (سلطنت عثمانیہ ترکی) کے زوال کے سلسلے میں میری رپورٹ اعلیٰ درجے کی نہیں تھی ۔ سیکرٹری نے کانفرنس کے اختتام پر میری کمزوری کا ذکر کیا اور کہا کہ آئندہ دو باتوں کا خیال رکھنا اول مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کامیابی فراہم کریں۔ دوم تمہارادوسرا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔

چھ ماہ بعد ہمفرے بصرہ پہنچا۔ ہمفرے لکھتاہے: ”بصرہ میں عیسائیوں کی تعداد کم تھی۔ زندگی میں پہلا موقع تھاکہ میں اہل تشیع اور ایرانیوں سے مل رہا تھا… شیعہ سنی اختلافات کا ناقابل فہم پہلو ان کا مسلسل جاری رہنا ہے۔ اگرمسلمان حقیقتاً عقل سے کام لیتے تو تاریخ اور گزشتہ زمانے کی بجائے آج کے بارے میں سوچتے۔ ایک دفعہ میں نے شیعہ سنی اختلافات کے موضوع کو نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ” مسلمان اگر زندگی کاصحیح مفہوم سمجھتے تو اختلافات کو چھوڑ کر وحدت و اتحاد کی بات کرتے“ اچانک صدر کانفرنس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ”تمہارا کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے نہ کہ اتحاد کی دعوت دینا“

”عراق جانے سے پہلے سیکرٹری نے اپنی ایک نشست میں مجھ سے کہا

” ہمفرے ! تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان کے لئے ایک فطری امر ہیں۔ جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا اور ہابیل اورقابیل پیدا ہوئے اختلاف نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰ کی بازگشت تک اسی طرح جاری رہنا ہے۔ ہم انسانی اختلافات کو پانچ موضوعات پرتقسیم کرتے ہیں۔ (1) نسلی اختلافات (2) قبائلی اختلافا ت (3) ارضی اختلافات (4) قومی اختلافات (5) مذہبی ختلافات۔

اس سفر میں تمہارا اہم ترین مشن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں انہیں لندن پہنچانا ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں شیعہ سنی فساد برپا کرسکو تو گویا تم نے حکومت ِ برطانیہ کی عظیم خدمت کی۔ جب تک ہم نوآبادیاتی علاقوں (کالونیز) میں تفرقہ او ر اختلافات کی آگ کو ہوا نہیں دیں گے ہم عثمانی سلطنت کو شکست نہیں دے سکتے۔ اتنے بڑے علاقے پر انگریزوں کی مختصر سی قوم سوائے اس ہتھکنڈے کے اور کس طرح چھا سکتی ہے؟“

چند رو ز قبل ایک برطانوی پاکستانی بزرگ نے باتوں باتوں میں انکشاف کیا کہ ایک امریکی سے ان کی دوستی ہوگئی ۔ وہ اس کی پاکستان اور خاص طور پر فاٹا کے علاقے کی معلومات سے بے حد متاثر ہوئے۔ پھر راز کھلا کہ وہ صاحب اسلامی تعلیمات کے ماہر تھے اور وزیرستان کے کسی قصبے یا دیہات میں کئی برس تک امامت فرماتے اور معلومات اکٹھی کرکے سی آئی اے کو بھجواتے رہے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان میں امریکی، برطانوی، ہندوستانی اورکئی ممالک کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔

ہمفرے کے مطابق وزیر نے یہ حکم دیا کہ مجھے دو اہم رازوں سے آشنا کیا جائے ۔ جن سے صرف چند ایک ممبران آگاہ ہیں۔ مجھے وزارت کے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں لوگ گول میز کے اردگرد بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کیونکہ اجلاس میں شریک آدمیوں کی کیفیت کچھ یوں تھی
(1) ہوبہو سلطنت عثمانی کا جلالت، ترکی اور انگریزی پر مہارت
(2) لباس، انداز قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام کی سو فیصد نقل
(3) دربار ایران کے شیعہ عالم کی مکمل شبیہ
(4) نجف میں شیعوں کے مرجع تقلید کا بے مثل سراپا۔ آخری تین حضرات فارسی کے ماہر تھے۔ پانچوں سوانگی اپنے فرائض اور مقام و منصب سے بخوبی آشنا تھے۔ ہمفرے کو ان کا امتحان لینے کے لئے کہا گیا۔ اس نے کئی سوالات کئے۔ جوابات نہایت ماہرانہ انداز سے خالصتاً مسلمان عالموں کے لہجے میں دیئے گئے جن کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔

اس کے بعد ہمفرے وزارت کے حکم کے تحت کربلا اور نجف چلا گیا ’ایک بربری سوداگر کے بھیس میں نجف پہنچا اور وہاں کے شیعہ علما سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے ان کی درسی مجلسوں اور مباحثوں میں شامل ہونے لگا۔ یہاں ہمفرے نے ان علاقوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بغداد سے ہمفرے نے عراق کے بارے میں سو صفحات پر مشتمل رپورٹ بغداد میں وزارت کے نمائندے کے ذریعے بھجوائی۔ اپنے شکار سے رابطہ کیا، زکوٰة کے نام پر اسے رقم فراہم کی اور اسے ایران بھجوا دیا۔


وزارت کی جانب سے اسے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی گئی جو مسلمانوں کی پسماندگی پر سیرحاصل بحث کرتی تھی۔ چند ایک بڑی کمزوریوں کا ذکر یوں تھا
(1) شیعہ سنی اختلافات
(2) حکمرانوں کے ساتھ قوموں کے اختلافات
(3) قبائلی اختلافات
(4) علماء اور حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیاں
(5) جہالت اور نادانی کی فراوانی
(6) فکری جمود اور تعصب اور محنت سے جی چرانا
(7) مادی زندگی سے بے توجہی اور جنت کے خواب ( حکمرانوں کے مظالم
(9)امن وامان، سڑکوں، علاج معالجے وغیرہ کا فقدان
(10) حکومتی دفاتر میں بد انتظامی، قاعدے قانون کا فقدان
(11) اسلحہ دفاعی سامان کی کمی
(12) عورتوں کی تحقیر
(13) گندگی کے انبار اشیائے فروخت کے بے ہنگم ڈھیر۔

مسلمانوں کے ان کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کا طرز زندگی شریعت اور اسلامی قوانین سے رتی برابر بھی میل نہیں کھاتا۔ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے بے خبر رکھا جائے وغیرہ وغیرہ

ذرا غور کیجئے کہ جن کمزوریوں اور تلخ حقائق کا ذکر تین صدیاں قبل کیا گیا تھا کیا وہ آج بھی بدستور موجود نہیں ؟ ان تین صدیوں میں دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئی لیکن مسلمان اسی طرح مذہبی نفرتوں، تشدد، جہالت، غربت ، پسماندگی وغیرہ کے شکار ہیں۔

جس طرح اس دور میں برطانوی استعمار نے مڈل ایسٹ میں مذہبی فرقہ بندی کی حکمت عملی بنائی اسی طرح انگریزوں نے 1857 کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی اپنی آزمودہ حکمت عملی پر عمل کیا اور ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کیا گیا ہے اور اگر کوئی شخص مذہبی تفرقات کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرے تو سمجھ لیں کہ یا تو وہ کسی استعماری قوت کا ایجنٹ ہے یا پھر مسلمانوں کا دشمن!!

ہمفرے ٹھیک کہتا ہے کہ جس روز مسلمانوں نے قرآن و شریعت کی روح کو اپنا لیا وہ دوبارہ دنیا پر چھا جائیں گے۔

انگریزی میں اصل کتاب انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ اسے مندرجہ ذیل لنک پر پڑھا جا سکتا ہے:

at Al Hamra, Jeddah

عورتوں کا فتنہ


ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، خارجہ بن مصعب، زید بن اسلم، عطاء بن یسار،

حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

ہر صبح دو فرشتے پکارتے ہیں

عورتیں مردوں کیلئے ہلاکت و بربادی ہیں

عورتیں مردوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہیں۔

------------------------------

It was narrated from Abu Sa'eed (R.A) that 

the Messenger of Allah P.B.U.H said: 

"No morning comes but two angels call out: 

'Woe to men from women, 

and to women from men.": 

(Da'if)
-------------------------------

سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 879

حدیث مرفوع مکررات 
1

Wednesday 23 May 2012

NEVER BE DECEIVED BY TEARS



Sha'bi narrates, I was once in the company of Qadhi Shuraih when a woman arrived quarelling with somebody. Soon tears began to flow from her eyes.

I said to the judge, "Do you not see her crying? The decision should be given in her favour as she is the opressed."

The wise judge replied, "O Sha'bi, the brothers of Yusuf (A.S) also came home crying, while they were opressors and liars. A man should only deliver a judgement based on truth."

May ALLAH give us the ability to always be just in our doings. Aameen

MAYNONNAISE AND COFFEE


When things in your life seem almost too much to handle, when 24 hours in a day are not enough, remember the mayonnaise jar and the coffee...

A professor stood before his philosophy class and had some items in front of him. When the class began, wordlessly, he picked up a very large and empty mayonnaise jar and proceeded to fill it with golf balls.

He then asked the students if the jar was full. They agreed that it was. So the professor then picked up a box of pebbles and poured them into the jar. He shook the jar lightly. The pebbles rolled into the open areas between the golf balls. He then asked the students again if the jar was full. They agreed it was.

The professor next picked up a box of sand and poured it into the jar. Of course, the sand filled up everything else. He asked once more if the jar was full. The students responded with a unanimous "yes."

The professor then produced two cups of coffee from under the table and poured the entire contents into the jar, effectively filling the empty space between the sand. The students laughed.

"Now," said the professor, as the laughter subsided, "I want you to recognize that this jar represents your life. The golf balls are the important things, your God, family, your children, your health, your friends, and your favorite passions things that if everything else was lost and only they remained, your life would still be full.

The pebbles are the other things that matter like your job, your house, and your car. The sand is everything else the small stuff.

"If you put the sand into the jar first," he continued, "there is no room for the pebbles or the golf balls. The same goes for life. If you spend all your time and energy on the small stuff, you will never have room for the things that are important. Pay attention to the things that are critical to your happiness. Play with your children. Take care of the golf balls first, the things that really matter. Set your priorities. The rest is just sand."

One of the students raised her hand and inquired what the coffee represented.

The professor smiled. "I'm glad you asked. It just goes to show you that no matter how full your life may seem, there's always room for a couple of cups of coffee with a friend."

THE OLD MOTHER



An 80 year old woman was sitting on the sofa in her house along with her 45 years old highly educated son. Suddenly a crow perched on their window. The Mother asked her Son, "What is this?" The Son replied "It is a crow". After a few minutes, the Mother asked her Son the 2nd time, "What is this?" The Son said "Mother, I have just now told you "It's a crow".

After a little while, the old Mother again asked her Son the 3rd time, What is this?" At this time some expression of irritation was felt in the Son's tone when he said to his Mother with a rebuff. "It's a crow, a crow". A little after, the Mother again asked her Son the 4th time, "What is this?" This time the Son shouted at his Mother, "Why do you keep asking me the same question again and again, although I have told you so many times 'IT IS A CROW'. Are you not able to understand this?"

A little later the Mother went to her room and came back with an old tattered diary, which she had maintained since her Son was born. On opening a page, she asked her Son to read that page. When the son read it, the following words were written in the diary :-

"Today my little son aged three was sitting with me on the sofa, when a crow was sitting on the window. My Son asked me 23 times what it was, and I replied to him all 23 times that it was a Crow. I hugged him lovingly each time he asked me the same question again and again for 23 times. I did not at all feel irritated, I rather felt affection for my innocent child".

While the little child asked her 23 times "What is this", the Mother had felt no irritation in replying to the same question all 23 times and when today the Mother asked her Son the same question just 4 times, the Son felt irritated and annoyed. 

We will never be able to repay our mothers for what they have done. Let us atleast serve them. For our heaven does lay beneath their feet. May ALLAH give us the ability to fulfill our duties towards them. Aameen

A MOTHERS LOVE


After the Earthquake had subsided, when the rescuers reached the ruins of a young woman’s house, they saw her dead body through the cracks. But her pose was somehow strange that she knelt on her knees like a person was worshiping; her body was leaning forward, and her two hands were supporting by an object. The collapsed house had crashed her back and her head.


With so many difficulties, the leader of the rescuer team put his hand through a narrow gap on the wall to reach the woman’s body. He was hoping that this woman could be still alive. However, the cold and stiff body told him that she had passed away for sure.

He and the rest of the team left this house and were going to search the next collapsed building. For some reasons, the team leader was driven by a compelling force to go back to the ruin house of the dead woman. Again, he knelt down and used his had through the narrow cracks to s


earch the little space under the dead body. Suddenly, he screamed with excitement, “A child! There is a child! “


The whole team worked together; carefully they removed the piles of ruined objects around the dead woman. There was a 3 months old little boy wrapped in a flowery blanket under his mother’s dead body. Obviously, the woman had made an ultimate sacrifice for saving her son. When her house was falling, she used her body to make a cover to protect her son. The little boy was still sleeping peacefully when the team leader picked him up.

The medical doctor came quickly to exam the little boy. After he opened the blanket, he saw a cell phone inside the blanket. There was a text written on the screen. It said,”

If you can survive, you must remember that I love you.” This cell phone was passing around from one hand to another. Every body that read the message wept. ” If you can survive, you must remember that I love you.”

Such is the mother’s love for her child!

May ALLAH grant our Mothers Jannah. Aameen

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...