Tuesday, 16 April 2013

Haqeeqi Nazriyat -e- Sahaba (r.a) By Shaykh Noor Muhammad Qadri Tonsvi

BLESSING OF ZAMZAM

POWER OF ISTIGHFAAR

Imam Ahmed, may God be pleased with him, once was traveling and needed to stay somewhere overnight. When he went to the masjid, the guard (not recognizing Imam Ahmed) denied him entrance. Imam Ahmed tried numerous times, but the guard did not accept his requests. Frustrated, Imam Ahmed resolved to spend the night in the masjid yard. The guard became furious and dragged him away, despite the old age and frailty of Imam Ahmed.

A baker, whose shop was nearby, watched this scene and took pity on Imam Ahmed. He invited the Imam to stay with him for the night. While there, Imam Ahmed noticed that the baker continually made istighfaar (asking for Allah’s forgiveness) while working, and in the morning, the Imam eagerly asked his host about the latter’s continual seeking of forgiveness. The baker said it had become like second nature, and Imam Ahmed then asked whether the man had experienced any reward from this practice.

The baker answered,

“By Allah! No duaa (supplication to God) I made except that it was answered but one.”
“And what is that duaa?” asked Imam Ahmed.

“To be able to see the famed Imam Ahmed ibn Hanbal!”
Imam Ahmed interjected, “I am Ahmed ibn Hanbal!”

He then went on to add:

“By Allah! I was dragged to your place so that you can have your duaa/supplication come true.”

Power of Istighfar - try it and see your life change insha'Allah!


BEST ISLAMIC STORIES SITE

VALUE OF TIME



A miser had accumulated, by effort, trade and lending, three hunderd thousand dinars. He had lands and buildings, and all kinds of wealth. He then decided that he would spend a year in enjoyment, living comfortably, and then decide as what his future should be. 

But, almost as soon as he had stopped amassing money the Angel of Death appeared before him, to take his life away.

The miser tried, by every argument which he could muster, to dissuade the Angel, who seemed, however, adament. Then the man said: "Grant me but three more days and I will give you one-third of my possessions."

The angel refused, and pulled again at the miser's life, tugging to take it away.

Then the man said: "If you only allow me two more days on earth, I will give you two hundred thousand dinars from my store."

But the Angel would not listen to him. And the Angel even refused to give the man a solitary extra day for all his three hundred thousand pieces.

The the miser said: "Please, then, give me just time enough to write one little thing down."

This time the Angel allowed him this single concession, and the man wrote, with his own blood;

"Man, make use of your life. I could not buy one hour for three hundred thousand dinars. Make sure that you realize the value of your time."



BEST ISLAMIC STORIES SITE

Wednesday, 10 April 2013

WHY I ACCEPT ISLAM BY MOHAMMAD YOUSAF


****ضرور پڑھیں اور دوستوں کے ساتھ شیر کریں****

’’ہماری رہائش ریلوے کالونی گڑھی شاہو لاہور میں تھی ۔یہاں میرے ہم مذہبوں کے بھی گھرتھے لیکن زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ اتفاق کی بات کہیے کہ میرا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا اور کھیلنا کودنا بھی مسلمان لڑکوں کے ساتھ ہی تھا ۔سچی بات یہ ہے کہ وہ بھی مجھے اپنے جیسے ہی لگتے تھے ۔مسلمانوں کے ہاں مجھے کوئی ایسی خاص خوبی یا امتیازی بات نظر نہیں آتی تھی کہمیرے دل میں مسلمان ہونے کا شوق پیدا ہوتا ،مسلمان لڑکوں کے مشغلے بھی میرے جیسے ہی تھے۔ ایف سی کالج میں پڑھائی کے دوران میری دوستی ایک ہم جماعت لڑکے جاوید انور سے قائم ہوئی وہ کرکٹ کے سپرسٹار اور ہمارے سینئر ساتھی سعید انور کا چھوٹا بھائی ہے۔ میں نے زندگی بھر اس جیسا لڑکا نہیں دیکھا ۔میں اسے ملنے سعید بھائی کے گھر جاتارہتا تھا ۔سعید بھائی تو 1989ء سے قومی ٹیم میں تھے ،میں کوئی نوسال بعد 1998ء میں ٹیم میں آیا ۔وہاں اکثر ایک سابق کرکٹر ذوالقرنین حیدر آجاتے تھے جو تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ نیکی اور نماز روزے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت سعید بھائی کو ایسی باتوں کی لگن نہ تھی ۔اکثر جب ذوالقرنین حیدر یا تبلیغ والے دوسرے لوگ آتے تو سعید بھائی مجھے باہر بھیج دیتے کہ کہہ آئو کہ سعید گھر پر نہیں ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ ان کی طبیعت مذہب کی طرف آنے لگی ۔تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے بھی ان کا میل جول بڑھ گیا۔ اپنی بیٹی کی وفات کے بعد وہ مکمل طورپر مذہبی رنگ میں رنگ گئے۔ اکثر تبلیغی دوروں پر رہنے لگے ۔وہ مجھے کہتے تھے ’’یوسف ہرروز سونے سے پہلے یہ دعا مانگا کرو۔‘‘ اے خدا!مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھا… سعید بھائی نے مجھے ان دنوں کبھی یہ نہ کہا کہ مسلمان ہوجائو ہمیشہ اس دعا کی تلقین کرتے رہے۔ میں سعید بھائی کی نصیحت کے مطابق ہمیشہ سونے سے پہلے یہ دعا مانگتا رہا ۔میں نے سعید بھائی میں آنے والی تبدیلیوں کو بڑے غور سے دیکھا اور بہت متاثر ہوا ،

پھر ایک عجیب بات ہوئی ۔میرا ایک دوست ہے وقار احمد، بڑی پرانی دوستی ہے ہماری ، یہ تین سال پہلے کی بات ہے میں حسب معمول رات کو یہ دعا مانگ کر سوگیا کہ ’’اے خدا مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھا‘‘ رات میں نے خواب میں اپنے دوست وقار کو دیکھا وہ خوشی خوشی میرے پاس آیا اور کہنے لگا’’سنا ہے تم مسلمان ہوگئے ہو‘‘ میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔آنکھ کھلنے پر میں یہ سوچتا رہا کہ کیا واقعی اللہ نے مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھادیا ہے۔ وقار شیخوپورہ کا رہنے والا ہے۔ اتفاق دیکھئے کہ انہی دنوں پی آئی اے اور نیشنل بینک کے درمیان میچ کیلئے شیخوپورہ کرکٹ گرائونڈ تجویز ہوا۔ میں پی آئی اے کی طرف سے کھیل رہا تھا ۔شیخوپورہ پہنچا تو میرا وہی دوست وقار احمد مجھ سے ملنے آگیا۔ وہی خواب والی وضع قطع ، میں اس وقت حیران رہ گیا جب اس نے بالکل اسی انداز سے مجھ سے پوچھا ’’سنا ہے تم مسلمان ہوگئے ہو؟‘‘میں اس کا منہ دیکھنے لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ نے مجھے اشارہ دے دیا ہے کہ حق کا راستہ کیا ہے ۔

شام کو میں شیخوپورہ سے لاہور آیا تو سیدھا کیولری گرائونڈ سعید بھائی کے پاس چلا گیا یہ اکتوبر 2002ء کا ذکر ہے ۔میں نے سعید بھائی سے کہا ’’میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں‘‘ سعید بھائی نے مجھے گلے سے لگالیا مجھے کلمہ پڑھایا اور میری دنیا بدل گئی۔ اس دوران میں جب بھی رائے ونڈ جاتا اور حاجی عبدالوہاب صاحب سے پوچھتا کہ اب مجھے اسلام قبول کرلینے کا اعلان کردینا چاہئے تو وہ کہتے ’’نہیں ابھی نہیں‘ شاید انہیں میری شکل دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی میں اس لائق نہیں ہوا ۔میری مولوی فہیم صاحب اور طارق جمیل صاحب سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ انضمام بھائی کو پتہ چلا تو انہوں نے بڑی شفقت کی ۔ جون 2005ء میں کرکٹ ٹیم کچھ میچ کھیلنے سعودی عرب گئی ۔میچ تو نہ ہوئے البتہ ٹیم نے عمرہ کیا ۔اس سے کوئی ڈیڑھ دومہینہ پہلے میری بیوی بھی اسلام قبول کرچکی تھی میں نے اسے آزادی دی تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ پوری ٹیم نے عمرہ کیا لیکن میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوا کیونکہ ابھی تک میں نے مسلمان ہونے کا کھلا اعلان نہیں کیا تھا لیکن مجھے سخت بے تابی تھی کہ عمرے کی سعادت حاصل کروں ۔ میری بیوی بھی میرے ہمراہ تھی ۔ اب وہ تانیہ کی بجائے فاطمہ ہوچکی تھی۔رائے ونڈ سے مولوی فہیم صاحب نے مکہ میں موجود عالمگیر صاحب کے ذمہ لگایا اور وہ رات گئے ہم دونوں کو حرم شریف لے گئے ہم نے عمرہ ادا کیا ، یہ اللہ کا بہت بڑا کرم تھا۔ رات کے پچھلے پہر شروع ہونے والا عمرہ صبح پانچ بجے ختم ہوا۔ میں نے اسی وقت مولوی فہیم صاحب کو فون کیا انہوں نے حاجی عبدالوہاب صاحب سے ذکر کیا جنہوں نے مجھے قبول اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت دے دی۔ پاکستان واپس آتے ہی میں نے اعلان کردیا ۔اسے اتفاق یا قدرت کا انعام کہیے کہ میں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے نام بھی مسلمانوں والے رکھے تھے۔ بیٹی کا نام انیقہ یوسف اور بیٹے کا نام دانیال یوسف ہے ۔میرے قبول اسلام پر والد صاحب نے برہمی کا اظہار نہیں کیا والدہ کچھ رنجیدہ ہوئیں لیکن اب سب کچھ معمول پر آرہا ہے میں اللہ سے دعا گورہتا ہوں کہ وہ میرے پورے خاندان کو حق اور سچ کا راستہ دکھادے۔



BEST ISLAMIC WEBSITE

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...