عائشہ گلالئی کے الزامات
آج عائشہ گلالئی نے چند ایک اینکرز کے پروگرامز میں اپنی طرف سے عمران خان پر لگائے گئے الزامات کے سلسلہ میں بات کی اور اپنے الزامات کو بے بنیاد ماننے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ تمام الزامات حقیقت پر مبنی ہیں۔ آئیے تھوڑی سی بات عائشہ گلالئی کے الزامات اور ان کی حقیقت پر بھی کر لیتے ہیں۔
1۔ عائشہ گلالئی نے اے آر وائی ٹی ویی پر کاشف عباسی سے بات کرتے ہوئے بالآخر یہ بات تسلیم کر لی کہ NA-1 کا ٹکٹ مانگا تھا لیکن ٹکٹ نہ دیا گیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب مبشر لقمان کے پروگرام میں گئیں تو وہاں پر کاشف عباسی کے پروگرام میں کہی گئی بات سے مکر گئیں اور کہا کہ NA-1کے ٹکٹ کی بات کاشف عباسی نے مجھ سے نکلوائی۔ حالانکہ انسان کےسے کوئی دوسرا وہی بات اگلوا سکتا ہے جو کہ سچ ہو۔کبھی بھی کوئی بھی شخص ہم سے ایسی بات نہیں اگلوا سکتا جو کہ ہم نے نہ کی ہو یا ہماری خواہش نہ ہو۔
مبشر لقمان سے بات کرتے ہوئے عائشہ گلالئی نے اس بات پر تو بہت زور دیا کہ عمران خان نے مجھے گندے میسجز کیے ہیں لیکن اس بات کا ثبوت دینے سے قطعاً انکار کر دیا۔
دوسری طرف عائشہ گلالئی نے امیرمقام اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اس بات پر تو ہرجانے کا نوٹس بھیجنے کا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ عائشہ گلالئی کی امیرمقام سے ملاقات ہوئی ہے اور امیر مقام کی دعوت پر عائشہ گلالئی نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن اپنے اس دعویٰ کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہ کیا کہ بقول ان کے انہیں پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کی طرف سے اپنی اپنی جماعتوں میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی ہے۔
عائشہ گلالئی کی جس بات نے سب سے زیادہ اس کی کریڈیبیلیٹی کو خراب کیا ہے وہ اس کی طرف سے پی ٹی آئی چھوڑنے کے باوجود پی ٹی آئی کی طرف سے عنایت کردہ مخصوص نشست کو نہ چھوڑنے کا اعلان ہے۔ حالانکہ جب بھی کوئی بھی سیاست دان چاہے اس نے الیکشن لڑکر ہی سیٹ کیوں نہ جیتی ہو جب وہ پارٹی چھوڑتا ہے تو ساتھ میں اس سیٹ سے بھی استعفی دے دیتا ہے۔ لیکن نہ جانے عائشہ گلالئی کیسی غیرت منداوربااصول خاتون سیاست دان ہیں کہ 2013 میں بھیجے گئے عمران خان کے گندے میسج کے باوجود دودن پہلے تک وہ عمران خان سے ملاقات کرنے بنی گالہ تو چلی گئیں اور وہاں سے واپس آنے کے بعد انہیں یاد آیا کہ عمران خان ایک انتہائی گھٹیا کردار کا مالک ہے لہٰذا اسے پی ٹی آئی کو چھوڑ دینا چاہیے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے ملنے والی مخصوص نشست کو چھوڑنے کےلئے نہ تو عائشہ گلالئی کے ضمیر نے مجبور کیا اور نہ ہی ان کے اصولوں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ پی ٹی آئی کی طرف سے ملنے والی سیٹ کو چھوڑ دیں۔
بی بی کوئی اصول ہوتا ہے۔ کوئی ضمیر ہوتا ہے۔
تحریر ~عاصم اعوان~
آج عائشہ گلالئی نے چند ایک اینکرز کے پروگرامز میں اپنی طرف سے عمران خان پر لگائے گئے الزامات کے سلسلہ میں بات کی اور اپنے الزامات کو بے بنیاد ماننے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ تمام الزامات حقیقت پر مبنی ہیں۔ آئیے تھوڑی سی بات عائشہ گلالئی کے الزامات اور ان کی حقیقت پر بھی کر لیتے ہیں۔
1۔ عائشہ گلالئی نے اے آر وائی ٹی ویی پر کاشف عباسی سے بات کرتے ہوئے بالآخر یہ بات تسلیم کر لی کہ NA-1 کا ٹکٹ مانگا تھا لیکن ٹکٹ نہ دیا گیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب مبشر لقمان کے پروگرام میں گئیں تو وہاں پر کاشف عباسی کے پروگرام میں کہی گئی بات سے مکر گئیں اور کہا کہ NA-1کے ٹکٹ کی بات کاشف عباسی نے مجھ سے نکلوائی۔ حالانکہ انسان کےسے کوئی دوسرا وہی بات اگلوا سکتا ہے جو کہ سچ ہو۔کبھی بھی کوئی بھی شخص ہم سے ایسی بات نہیں اگلوا سکتا جو کہ ہم نے نہ کی ہو یا ہماری خواہش نہ ہو۔
مبشر لقمان سے بات کرتے ہوئے عائشہ گلالئی نے اس بات پر تو بہت زور دیا کہ عمران خان نے مجھے گندے میسجز کیے ہیں لیکن اس بات کا ثبوت دینے سے قطعاً انکار کر دیا۔
دوسری طرف عائشہ گلالئی نے امیرمقام اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اس بات پر تو ہرجانے کا نوٹس بھیجنے کا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ عائشہ گلالئی کی امیرمقام سے ملاقات ہوئی ہے اور امیر مقام کی دعوت پر عائشہ گلالئی نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن اپنے اس دعویٰ کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہ کیا کہ بقول ان کے انہیں پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کی طرف سے اپنی اپنی جماعتوں میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی ہے۔
عائشہ گلالئی کی جس بات نے سب سے زیادہ اس کی کریڈیبیلیٹی کو خراب کیا ہے وہ اس کی طرف سے پی ٹی آئی چھوڑنے کے باوجود پی ٹی آئی کی طرف سے عنایت کردہ مخصوص نشست کو نہ چھوڑنے کا اعلان ہے۔ حالانکہ جب بھی کوئی بھی سیاست دان چاہے اس نے الیکشن لڑکر ہی سیٹ کیوں نہ جیتی ہو جب وہ پارٹی چھوڑتا ہے تو ساتھ میں اس سیٹ سے بھی استعفی دے دیتا ہے۔ لیکن نہ جانے عائشہ گلالئی کیسی غیرت منداوربااصول خاتون سیاست دان ہیں کہ 2013 میں بھیجے گئے عمران خان کے گندے میسج کے باوجود دودن پہلے تک وہ عمران خان سے ملاقات کرنے بنی گالہ تو چلی گئیں اور وہاں سے واپس آنے کے بعد انہیں یاد آیا کہ عمران خان ایک انتہائی گھٹیا کردار کا مالک ہے لہٰذا اسے پی ٹی آئی کو چھوڑ دینا چاہیے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے ملنے والی مخصوص نشست کو چھوڑنے کےلئے نہ تو عائشہ گلالئی کے ضمیر نے مجبور کیا اور نہ ہی ان کے اصولوں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ پی ٹی آئی کی طرف سے ملنے والی سیٹ کو چھوڑ دیں۔
بی بی کوئی اصول ہوتا ہے۔ کوئی ضمیر ہوتا ہے۔
تحریر ~عاصم اعوان~