Monday, 14 May 2012

قیامت کا بیان :



شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
جب واقع ہونے والی واقع ہو گی ﴿۱﴾
جس کے واقع ہونے میں کچھ بھی جھوٹ نہیں ﴿۲﴾ 
پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ﴿۳﴾ 
جب کہ زمین بڑے زور سے ہلائی جائے گی ﴿۴﴾ 
اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر چورا ہو جائیں گے ﴿۵﴾
سو و ہ غبار ہو کر اڑتے پھریں گے ﴿۶﴾ 

______________________

بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ
إِذا وَقَعَتِ الواقِعَةُ ﴿١﴾ لَيسَ لِوَقعَتِها كاذِبَةٌ ﴿٢﴾ خافِضَةٌ رافِعَةٌ ﴿٣﴾ إِذا رُجَّتِ الأَرضُ رَجًّا ﴿٤﴾ وَبُسَّتِ الجِبالُ بَسًّا ﴿٥﴾ فَكانَت هَباءً مُنبَثًّا ﴿٦﴾

______________________

In the Name of God, the Merciful, the Compassionate
(1) 
When the Terror descends (2) (and none denies its descending) (3) abasing, exalting, (4) when the earth shall be rocked (5) and the mountains crumbled (6)

Sunday, 13 May 2012

M - O - T - H - E - R



"M" is for the million things she


gave me,
"O" means only that she's
growing old,
"T" is for the tears she shedto
save me,
"H" is for her heart of purestgold;
"E" is for her eyes, with love-light
shining,
"R" means right, and right she'll
always be,
A word that means the world to
me.
I LOVE YOU MOM !!
HAPPY MOTHER'S DAY TO ALL:) ♥
HATS OFF AND SALUTE TO ALL
MOTHERS :)

Thursday, 10 May 2012

بیوی کی تعریف کرنے کی نصیحت (برائے شوہر)۔


بیوی کی تعریف کرنے کی نصیحت 

جس کے ساتھ تعلق ہو اس سے محبت ہوہی جاتی ہے نیز جس کی خوبیوں کا استحضار ہو اس کی محبت بھی دل میں آتی ہے لہٰذا اپنی بیوی کی خوبیوں پر نظر رکھیں خود بخو د اس کی محبت دل میں پیدا ہو گی اس کی تعریف کیجئے اسکے دل میں آپ کی محبت پیدا ہوگی ۔
”جس کے دل میں یہ احساس ہو کہ یہ بیوی کھانے پکانے کی جو خدمت انجام دے رہی ہے یہ اس کا حسن سلوک اور حسن معاملہ ہے جو میرے ساتھ کر رہی ہے تو وہ اس کے کھانے پکانے کی تعریف کریگا اس کی ہمت بندھائے گا۔ اس کا حوصلہ ہو پائیگا“ لیکن جوشخص اپنی بیوی کو نوکرانی یا خادمہ سمجھتا ہواور کھانا پکانا اسکی ذمہ داری سمجھتا ہو۔ ایسا شخص کبھی اچھے کھانے پکانے پر بھی اپنی بیوی کی تعریف نہیں کرے گا اور نمک کی زیادتی یا چینی کی کمی پر ہی گھر میں قیامت برپا کردے گا اور لمباچوڑا جھگڑا شروع کردیگا۔ 
عورت فطری طور پر نرم دل ہوتی ہے تھوڑی سی تعریف پر پھولے نہیں سماتی آئندہ اسی کام کو (جس کی تعریف ہوئی ہے)اور مزید اچھا کرکے دکھاتی ہے۔ 
لہٰذا ہر چیز مثبت انداز میں بیوی کوسمجھا یئے جتناکام ہو اس پر اس کی تعریف کریں جو عیب یا کوتاہی باقی رہ گئی اس طرح سمجھائیں کہ آئندہ ایسا نہ ہو اوروہ آج سے ہی معمول بنالیں کہ چھوٹے موٹے کام پر بیوی کے چائے پکانے پر، پانی کے گلاس پیش کرنے پر ا س کو جزاک اللہ خیرا(اللہ تعالیٰ تمہیں اس کام کا اجر عطاء فرمائے )کہے دل وزبان سے شکر گزار بنئے پھر دیکھئے بیوی بھی آپ کی کیسی قدر دان بنتی ہے یاد رکھئے انسان فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ اس کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ اور حوصلہ افزائی کی خواہش زیادہ جب ہی ابھرتی ہے جبکہ اس کی اعلانیہ حوصلہ شکنی کی جارہی ہو خصوصاً دیورانی ، جیٹھانی ، نند وغیرہ مسلسل اس کے کاموں میں رخنہ ڈال رہی ہوں اور ذرا ذرا سی بات پر اس کی پکڑ کی جاتی ہو یہ برعکس اس کے کہ اس کے کام کی ستائش کی جاتی ہے اور اس کو شاباش کیا جاتا یا ایک لفظ شکر یہ کا ادا کہا جاتا اس طرح حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے تنقید سے آدمی اکثر ہمت ہار بیٹھتا ہے اور اس کی تمام صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں ہر حال بیوی کے کاموں کی تعریف کیجئے اور حوصلہ افزائی کیجئے سوانشاء اللہ عزوجل آپ کو دوسری طرف سے پورا تعاون حاصل ہوگا۔ 
تعر یف کے سا تھ خو شا مد بھی کر یں 
کبھی بیوی کے کھانے پکانے پر تعریف کردیں، کبھی اس کے لباس کی تعریف کردیں، کبھی اس کے حسن و جمال کی تعریف کر دیں ۔ یہ مت سمجھیں کہ کھانا پکانا ، کپڑے استری کرنا یا گھر کے دیگر کام کاج کرنا تو اس کی ذمہ داری ہے، میں کیوں تعریفیں اور خوشامد یں کرتا پھروں ، یہ کام تو ساری بیگمات کرتی ہیں یہ کوئی آسمان سے اتری ہے کہ ان کاموں پر بھی اس کی تعریفیں اور واہ کی جائے۔
نہیں ، یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ اس طرح آپ اپنی بیوی کی محبت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اِزدواجی زندگی پر خوشیوں کی بارش ہو تو آپ کواس کی تعریف کے دو بول ضرور کہنے چاہیں ۔ آپ یقین جانیے کہ آپ کے یہ دوبول سن کر اس کے سارے دن کے کام کاج سے ہونے والی تھکاوٹ دور ہوجائے گی اور آپ بھی اسے اپنے سامنے تروتازہ پھول کی طرح محسوس کریں گے ۔ علاوہ ازیں تعریف کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنا کام پہلے سے اور اچھا کرنے کی کوشش کرے گی ۔ 
بیوی کو خادمہ نہیں محبوبہ سمجھیں 
اگر چہ آپ کی خدمت اور اطاعت کرنا آپ کی بیوی کے فرائض میں شامل ہے لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ اسے خادمہ سمجھ لیں اور ایک باندی یا نوکرانی کی طرح ہروقت حکم پر حکم دیتے رہیں ۔ اس طرح وہ آپ کی خدمت سے اُکتا جائے گی ۔ آپ کے اس حاکمانہ رویے سے تنگ آجائے گی اور پھر آہستہ آہستہ اس رویے کے خلاف ردعمل بھی ظاہر کرے گی ۔ حکم عدولی اور نافرمانی بھی کرے گی ۔ نتیجة ً گھر میں آئے دن لڑائی جھگڑے کی فضا پیداہوتی رہے گی ۔ 
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیوی آپ کی مطیعِ فرمان رہے ، آپ سے محبت کرے ، آپ کاکہا مانے ، آپ کے اشاروں پر چلے ، تو پھر آپ اسے خادمہ نہیں بلکہ اپنی محبوبہ سمجھیں ۔ محبوبہ کی طرح اس سے برتاوٴ کریں ۔ چھوٹے موٹے کام اسے کہنے کی بجائے خودہی کرلیا کریں ۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک وقت آئے گا کہ آپ کوا پنی بیوی سے یہ پوچنے کی نوبت بھی نہ آئے گی کہ فلاں کام ہو ایا نہیں ۔ کیونکہ جب آپ اپنی بیوی کا خیال رکھیں گے ، اسے بھی اپنی طرح انسان سمجھیں گے تو وہ بھی آپ کی ہر چیز کا خیال رکھے گی۔ 
بیوی کو راحت بھی دیں 
ہمارے معاشرے میں ایک عورت کو شاد ی کے بعد خاوند کی خد مت بھی کرنا پڑتی ہے اور خاوند کے تمام گھر والو ں کی بھی ۔ بلکہ شادی کے بعد خاوند کی ماں اور بہنیں یہ سمجھتی ہیں کہ اب بہو گھر میں آگئی ہے تو ہمیں کام کاج کی آخر کیا ضرورت ۔ سارے گھر کا بوجھ ایک جان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جہاں ایک دن کاکام چار عورتیں کرتی تھیں ، وہ اب اکیلی بہو کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بھی انسان ہے، اس کا بھی کوئی مقام ہے، وہ نوکرانی نہیں بلکہ بہو ہے ۔ جتنی اس کی استطاعت ہے اس سے بڑھ کر وہ کام نہیں کرسکتی اور جب بچے ہو جائیں تو اسے بچے بھی سنبھالنے ہیں ۔ 
ایسے موقع پر دیندار ساس تو مناسب طریقے سے کاموں کی ذمہ داریاں تقسیم کردیتی ہے لیکن اکثر ساسیں ایسا نہیں کرتیں بلکہ بات بات پر بہو کے کیڑے نکالتی ہیں ، اسے کوستی رہتی ہیں ۔ ایسے حالات میں اب یہ خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات میں توازن قائم کرے ۔ اپنی بیوی کے لیے راحت اور آرام کا موقع بھی پیدا کرے ۔ اگر خاوند بھی بے جا بیوی کو کوسے اور گھر والوں کی ہاں میں ہاں ملائے تو یہ بیوی پر ظلم ہے۔ اس سے زندگی کی گاڑی خوشگوار طریقے سے نہیں چل سکتی.

¤ Sunnah Acts of Jumu'ah ¤


1. To make ghusl
2. To wear nice and clean clothes.
3. To proceed early to the Masjid.
4. To go to the Masjid on foot.
5. To try to sit as close as possible to the Imaam.
6. If the Saffs (rows) are already filled, one should not jump over the shoulders of the musallies in order to get to the front.
7. One should not do any futile action eg. oneshould not fiddle with one’s clothes or fingers.
8. To listen to the Khutba attentively.
9. The person who recites Surah Kahaf on Friday will be bestowed with a Noor( Spiritual light) from under the Arsh (The Throne of Allah Ta’ala) which will extend from the earth till the sky and will benefit him in the darkness of the Day of Qiyaamah. All his (minor) sins which he had committed from the previous Jumu’ah up to this Jumu’ah will be forgiven.
10. Rasulullah (salallahu 'alayhi wa sallam) is reported to have said, “Recite Durood upon me in abundance on the day of Jumua’h since they are presented to me.”
11. On the day of Jumua’h it is Sunnat to apply oil to the hair and to use it or any othersweet smelling fragrance.
Source: Beautiful Sunnahs of Beloved Nabi (sallallahu 'alayhi wa sallam)

(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)


قرآن سیکھو اور پھر اسے پڑھو اور یہ یاد رکھو کہ اس شخص کی مثال جو قرآن سیکھتا ہے پھر اسے ہمیشہ پڑھتا رہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے اور اس میں مشغولیت یعنی تلاوت وغیرہ کے شب بیداری کرتا ہے اس تھیلی کی سی ہے جو مشک سے بھری ہو جس کی خوشبو تمام مکان میں پھیلتی ہے اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا اور سورہا یعنی وہ قرآن کی تلاوت قرات شب بیدار سے غافل رہا یا اس پر عمل نہ کیا اس تھیلی کی سی ہے جسے مشک پر باندھ دیا گیا ہو۔ 
(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

تشریح:
----------
تعلموا القرآن (قرآن سیکھو) کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پڑھنا سیکھو نہ صرف یہ کہ اس کے الفاظ کی ادائیگی سیکھو بلکہ اس کے مفہوم ومعانی اور تفسیر کا علم بھی حاصل کرو۔ حضرت ابو محمد جونبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا فرض کفایہ ہے نیز مسئلہ یہ ہے کہ نماز میں فرض قرات کی بقدر سورتوں یا آیتوں کا سیکھنا ہر مسلمان کے لئے فرض عین ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سورہ فاتحۃ (یا بقدر قرات نماز) سے زیادہ قرآن کی آیتوں یا سورتوں کو یاد کرنے میں مشغول ہونا نفل نماز میں مشغولیت سے افضل ہے کیونکہ وہ فرض کفایہ ہے جو نفل نماز سے زیادہ اہم ہے۔ بعض متاخرین علماء کا فتویٰ یہ ہے کہ حفظ قرآن میں مشغول ہونا ان علوم میں مشغول ہونے سے افضل ہے۔ جو فرض کفایہ ہیں یعنی جن علوم کو حاصل کرنا فرض عین ہے حفظ قرآن میں مشغول ہونا ان کی مشغولیت سے افضل نہیں ہے۔ مشک سے بھری ہوئی تھیلی کی مثال بایں طور دی گئی ہے کہ قرآن سیکھنے اور پڑھنے والے کا سینہ ایک تھیلی کے مانند ہے جس میں قرآن کریم مشک کی مانند ہے لہٰذا جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اس کی برکت اس کے گھر میں پھیلتی اور اس کے سننے والوں کو پہنچتی ہے 

حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے قرآن سیکھا مگر نہ تو اس نے اسے پڑھا اور نہ اس پر عمل کیا تو قرآن کریم کی برکت نہ اسے پہنچتی ہے نہ دوسروں کو اس لیے وہ مشک کی اس تھیلی کے مانند ہوا کہ جس کا منہ بند کردیا گیا ہو اور جس کی وجہ سے نہ تومشک کی خوشبو پھیلتی ہے اور نہ اس سے کسی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ 

لا قانونیت اور حیوانیت کی بھیانک تصویر !!


ان لوگوں نے کتوں سے اتنا پیار کیا ہے کہ اب انسان اور انسانیت کو بھول گئے ہیں، کتا کم از کم اپنے مالک سے تو وفا کرتا ہے ، امریکی تو پاؤں کے تلوے چاٹ کر بھی دغا ہی کرتے ہیں ، ظالم کی رسی دراز ہے ابھی لیکن ان شاء الله اب وہ دن زیادہ دور نہیں جب انکا ظلم کیفر کردار کو پہنچے گا ! ان ظالموں کا وہ حال ہو گا جو رہتی دنیا تک سب کے لئے عبرت کا نشان ہو گا ان شاء الله!!!

آئیے سب ملکر دعا کریں کہ الله پاک امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کر دے اور ہم کو پستی سے اٹھا کر واپس انہی بلندیوں پر لے جائے جو ہمارے پیارے رب کی مہربانیوں سے ہم کو عطا ہوئی تھیں اور جو ہمیشہ سے ہم مسلمانوں کا شیوہ رہا ہے اور امریکہ کو تباہ کر دے ، اس فتنے کو نیست و نابود کر دے جس کی وجہ سے ہزاروں بےگناہوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے، روز ہی جانے کتنی ماؤں کی گود اجڑتی ہے . یا الله امریکہ کا نام و نشان صفحہء ہستی سے مٹا دے اور اس کا انجام رہتی دنیا تک سب کے لئے عبرت کا نشان بنا دے .
آمین الہی آمین

Wednesday, 9 May 2012

اسلام میں عمر رسیدہ اور معذور افراد کے حقوق


اسلامی معاشرے میں عمر رسیدہ افراد خصوصی مقام کے حامل ہیں۔ اس کی بنیاد اسلام کی عطا کردہ وہ آفاقی تعلیمات ہیں جن میں عمر رسیدہ اَفراد کو باعثِ برکت و رحمت اور قابلِ عزت و تکریم قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويؤقر کبيرنا.

’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘

1. ترمذي، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان، 4 : 321، 322، رقم : 1919، 1921 2. ابويعلي، المسند، 7 : 238، رقم : 4242 3. ربيع، المسند، 1 : 231، رقم : 582 

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...