دیکھا جائے تو آج کا انسان جھوٹ کے سہارے ہی جیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ سچ بول کر اُس کامیابی نہیں ملے گی اور نہ فائدہ حاصل ہو گا اس لیے وہ جھوٹ بولتا ہی چلا جاتا ہے انسان 90 فیصد اپنی بات جھوٹ کے ساتھ شروع کرتا ہے اور جھوٹ کے ساتھ ہی ختم کرتا ہے۔ جھوٹ بولنے کی بیماری صرف بڑوں میں نہیں بلکہ چھوٹے بچوں میں پائی جاتی ہے وہ بچے جن کو ابھی تک سچ اور جھوٹ کی پہچان تک نہیں ہوئی لیکن وہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اگر وہ جھوٹ بولیں گے تو وہ بڑوں کی مار سے بچ جائیں گے اور انہیں کوئی کچھ نہ کہے گا۔
انسان کو اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے جھوٹ پہ جھوٹ بولتا رہتا ہے۔ جھوٹ انسان کو کہیںکا نہیں چھوڑتا اور اللہ تعالی جھوٹوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔ انسان دوسروں سے جھوٹ بول سکتا ہے یہاں تک اپنے آپ سے بھی جھوٹ بول سکتا ہے لیکن اپنے اللہ تعالی سے نہ جھوٹ بول سکتا ہے، نہ جھوٹ چھپا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے جھوٹ کو سچا ثابت کر سکتا ہے کیونکہ وہ پروردگار سب دیکھ رہا ہے اور وہ دلوںکے بھید خوب جانتا ہے۔ انسان یہ کیوں بھول جاتاہے کہ وہ جھوٹ بول کر دنیا کی ہر چیز سے بچ سکتا ہے مگر اپنے اللہ سے نہیں۔
جب چھوٹے بچے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ماں باپ کی ڈانٹ ، غصے اور مار سے بچنےکے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں کہ ہم نے یہ کام نہیں کیا یا الزام کسی دوسرے پر لگا دیتےہیں یہ بچے جو ابھی دنیا میں آئے ہی ہوتے ہیں جھوٹ کا سہارا لینے لگ جاتے ہیں۔(معذرت کے ساتھ وہ مثال جو بڑے دیا کرتے تھے کہ بچے کبھی جھوٹ نہیں بولتے وہ اب غلط ثابت ہوتی جارہی ہے۔)
بہت بار سُنا بلکہ کرتے دیکھا کہ آفس سے چھٹی کرنے کے لیے باس کے پاس جاتے ہیں اگر چھٹی مل جائے تو ٹھیک اگر نہ ملے تو لوگ اپنے بڑوں کی موت کا بہانہ بناتے ہیں کبھی کبھی مُردہ لوگوںکو دوبارہ مار دیتےہیں یا کبھی کبھی زندہ لوگوںکو مار دیتے ہیں کہ ہمارا دادا/دادی فوت ہوگئے ہیں ، کبھی خالہ کا نام ، کبھی خالو ، کبھی چاچا ، کبھی تایا یہاںتک کے ہم اپنے والدین کو بھی اس لسٹ میں شام کر لیتے ہیں کس لیے صرف ایک چھٹی کے لیے ؟ ایسے لوگوںکو شرم آنی چاہیے اتنا بیہودہ جھوٹ بولتے تھے ایسے لوگوں سے میں ایک سوال کرتا ہوں کہ اگر ایسے لوگوں کے بچے یہی چیز دہرائیں اور اپنے والدین کو جیتے جیتے مار دیں صرف چھٹی لینے کے لیے تو ایسے لوگوںپر کیا گزرے گی کبھی سوچا ہے یہ؟
اسی طرح سٹوڈنٹ لائف میں جب ہمیں اسکول/کالج یا اکیڈمی سے چھٹی لینی ہوتی ہے اور ہم بہت سے رشتوں کو بیمار کرنے کا جھوٹ بولتے ہیں اگر اس بات بن جائے تو ٹھیک ورنہ ہم پیٹ درد ، سر درد ، بخار یا کسی اور بیماری کا جھوٹا بہانہ کر کے چھٹی لینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہمیں باآسانی چھٹی مل جائے۔
آج کل کی جنریشن میں آوارہ گردی بہت عام ہو گئی ہے اور گھنٹوں گھنٹوں گھر سے باہر رہتےہیں پھر گھر لیٹ پہنچنے پر جب والدین کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم ہزاروں جھوٹے بہانے اور من گھرٹ کہانیاں سنانا شروع کر دیتےہیں کہ ہم تو سارا دوستوں کے ساتھ مل کر پڑھائی کر رہے تھے، ہمارے دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ہم سارا دن پسپتال رہے اسی طرح کے ہزاروںجھوٹ ہم خود سے اور اپنے بڑوںسے بول جاتے ہیں۔
انسان اپنا کاروبار چلانے / اپنا مال بیچنے کے لیے جھوٹی قسموں اور جھوٹی باتوں کا سہارا لیتا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ سچ بول کر ان کا مال نہیں بکے گا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا کر مال بِک جاتا ہے مگر برکت نہیںرہتی۔
آج کے دور میں رہ کر اپنی غلطی مان لینا بہت بڑی بات ہوتی ہے لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی غلطی کو سچ کرنے کے لیے ہزاروں جھوٹ بولتا رہتا ہے، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج کا انسان دوسروں کو نیچا دکھانے اور دوسروں کی عزت اُچھالنے کے لیے کس بھی حد سے گزرنے سے گریز نہیں کرتا چاہے اس کے لیے اُسے کتنا ہی جھوٹ کیوں نہ بولنا پڑے۔
اگر ہم اپنے ایک دن کا موازنہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہم ایک دن کتنے جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی جھوٹوں سے نفرت کرتا ہے پھر بھی ہم نڈر ہو کر جھوٹ پہ جھوٹ بولتے جاتے ہیں آخر کیوں؟ کبھی یہ سوچا ہے ہم نے؟
نماز پڑھنے کا جھوٹ، روزہ رکھنے کا جھوٹ ، سچ بولنے کا جھوٹ ، حلال کمانے کا جھوٹ، درگزر کرنے کا جھوٹ ، چغل خوری نہ کرنے کا جھوٹ ، غیبت نہ کرنے کا جھوٹ ، چوری نہ کرنے کا جھوٹ ، زانی نہ ہونے کا جھوٹ ، مشرک نہ ہونے کا جھوٹ ، ظالم نہ ہونے کا جھوٹ ، قاتل نہ ہونے کاجھوٹ ، بیمار ہونے کا جھوٹ وغیرہ وغیرہ جھوٹ پہ جھوٹ ، جھوٹ پہ جھوٹ کیا یہی جھوٹ ہمیں روزِ حشر والے دن بچا سکے گا؟ کیا یہ جھوٹ ہمیں جہنم کی آگ سے بچا سکے گا ، کیا یہ جھوٹ ہمیں اللہ تعالی کے عذاب سے بچا سکے گا ؟ کیا یہ جھوٹ ہمیں جنت میں داخل کروا سکے گا؟
دیکھا جائے تو ہم جھوٹ ہی جھوٹ بولتےہیں اور اس جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے پھر جھوٹ ہی بولتےہیں لیکن کبھی ایک بار اپنے ضمیر کو ٹٹول کر یہ پوچھا ہے کہ
کیا ہم اللہ سے جھوٹ بول سکتے ہیں ؟
کیا ہم جھوٹ بول کر اُس کی ذات سے نہیں بچ سکتے ہیں ؟
کیا کوئی ایسی بات ہے جو ہم اپنے رَب سے چھپا سکتے ہیں؟
نہیں ہم چاہ کر بھی اپنے رَب سے جھوٹ نہیں بول سکیں تو پھر ہم جھوٹ بولتے کیوں ہیں؟
انسان کو اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے جھوٹ پہ جھوٹ بولتا رہتا ہے۔ جھوٹ انسان کو کہیںکا نہیں چھوڑتا اور اللہ تعالی جھوٹوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔ انسان دوسروں سے جھوٹ بول سکتا ہے یہاں تک اپنے آپ سے بھی جھوٹ بول سکتا ہے لیکن اپنے اللہ تعالی سے نہ جھوٹ بول سکتا ہے، نہ جھوٹ چھپا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے جھوٹ کو سچا ثابت کر سکتا ہے کیونکہ وہ پروردگار سب دیکھ رہا ہے اور وہ دلوںکے بھید خوب جانتا ہے۔ انسان یہ کیوں بھول جاتاہے کہ وہ جھوٹ بول کر دنیا کی ہر چیز سے بچ سکتا ہے مگر اپنے اللہ سے نہیں۔
جب چھوٹے بچے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ماں باپ کی ڈانٹ ، غصے اور مار سے بچنےکے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں کہ ہم نے یہ کام نہیں کیا یا الزام کسی دوسرے پر لگا دیتےہیں یہ بچے جو ابھی دنیا میں آئے ہی ہوتے ہیں جھوٹ کا سہارا لینے لگ جاتے ہیں۔(معذرت کے ساتھ وہ مثال جو بڑے دیا کرتے تھے کہ بچے کبھی جھوٹ نہیں بولتے وہ اب غلط ثابت ہوتی جارہی ہے۔)
بہت بار سُنا بلکہ کرتے دیکھا کہ آفس سے چھٹی کرنے کے لیے باس کے پاس جاتے ہیں اگر چھٹی مل جائے تو ٹھیک اگر نہ ملے تو لوگ اپنے بڑوں کی موت کا بہانہ بناتے ہیں کبھی کبھی مُردہ لوگوںکو دوبارہ مار دیتےہیں یا کبھی کبھی زندہ لوگوںکو مار دیتے ہیں کہ ہمارا دادا/دادی فوت ہوگئے ہیں ، کبھی خالہ کا نام ، کبھی خالو ، کبھی چاچا ، کبھی تایا یہاںتک کے ہم اپنے والدین کو بھی اس لسٹ میں شام کر لیتے ہیں کس لیے صرف ایک چھٹی کے لیے ؟ ایسے لوگوںکو شرم آنی چاہیے اتنا بیہودہ جھوٹ بولتے تھے ایسے لوگوں سے میں ایک سوال کرتا ہوں کہ اگر ایسے لوگوں کے بچے یہی چیز دہرائیں اور اپنے والدین کو جیتے جیتے مار دیں صرف چھٹی لینے کے لیے تو ایسے لوگوںپر کیا گزرے گی کبھی سوچا ہے یہ؟
اسی طرح سٹوڈنٹ لائف میں جب ہمیں اسکول/کالج یا اکیڈمی سے چھٹی لینی ہوتی ہے اور ہم بہت سے رشتوں کو بیمار کرنے کا جھوٹ بولتے ہیں اگر اس بات بن جائے تو ٹھیک ورنہ ہم پیٹ درد ، سر درد ، بخار یا کسی اور بیماری کا جھوٹا بہانہ کر کے چھٹی لینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہمیں باآسانی چھٹی مل جائے۔
آج کل کی جنریشن میں آوارہ گردی بہت عام ہو گئی ہے اور گھنٹوں گھنٹوں گھر سے باہر رہتےہیں پھر گھر لیٹ پہنچنے پر جب والدین کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم ہزاروں جھوٹے بہانے اور من گھرٹ کہانیاں سنانا شروع کر دیتےہیں کہ ہم تو سارا دوستوں کے ساتھ مل کر پڑھائی کر رہے تھے، ہمارے دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ہم سارا دن پسپتال رہے اسی طرح کے ہزاروںجھوٹ ہم خود سے اور اپنے بڑوںسے بول جاتے ہیں۔
انسان اپنا کاروبار چلانے / اپنا مال بیچنے کے لیے جھوٹی قسموں اور جھوٹی باتوں کا سہارا لیتا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ سچ بول کر ان کا مال نہیں بکے گا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا کر مال بِک جاتا ہے مگر برکت نہیںرہتی۔
آج کے دور میں رہ کر اپنی غلطی مان لینا بہت بڑی بات ہوتی ہے لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی غلطی کو سچ کرنے کے لیے ہزاروں جھوٹ بولتا رہتا ہے، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج کا انسان دوسروں کو نیچا دکھانے اور دوسروں کی عزت اُچھالنے کے لیے کس بھی حد سے گزرنے سے گریز نہیں کرتا چاہے اس کے لیے اُسے کتنا ہی جھوٹ کیوں نہ بولنا پڑے۔
اگر ہم اپنے ایک دن کا موازنہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہم ایک دن کتنے جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی جھوٹوں سے نفرت کرتا ہے پھر بھی ہم نڈر ہو کر جھوٹ پہ جھوٹ بولتے جاتے ہیں آخر کیوں؟ کبھی یہ سوچا ہے ہم نے؟
نماز پڑھنے کا جھوٹ، روزہ رکھنے کا جھوٹ ، سچ بولنے کا جھوٹ ، حلال کمانے کا جھوٹ، درگزر کرنے کا جھوٹ ، چغل خوری نہ کرنے کا جھوٹ ، غیبت نہ کرنے کا جھوٹ ، چوری نہ کرنے کا جھوٹ ، زانی نہ ہونے کا جھوٹ ، مشرک نہ ہونے کا جھوٹ ، ظالم نہ ہونے کا جھوٹ ، قاتل نہ ہونے کاجھوٹ ، بیمار ہونے کا جھوٹ وغیرہ وغیرہ جھوٹ پہ جھوٹ ، جھوٹ پہ جھوٹ کیا یہی جھوٹ ہمیں روزِ حشر والے دن بچا سکے گا؟ کیا یہ جھوٹ ہمیں جہنم کی آگ سے بچا سکے گا ، کیا یہ جھوٹ ہمیں اللہ تعالی کے عذاب سے بچا سکے گا ؟ کیا یہ جھوٹ ہمیں جنت میں داخل کروا سکے گا؟
دیکھا جائے تو ہم جھوٹ ہی جھوٹ بولتےہیں اور اس جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے پھر جھوٹ ہی بولتےہیں لیکن کبھی ایک بار اپنے ضمیر کو ٹٹول کر یہ پوچھا ہے کہ
کیا ہم اللہ سے جھوٹ بول سکتے ہیں ؟
کیا ہم جھوٹ بول کر اُس کی ذات سے نہیں بچ سکتے ہیں ؟
کیا کوئی ایسی بات ہے جو ہم اپنے رَب سے چھپا سکتے ہیں؟
نہیں ہم چاہ کر بھی اپنے رَب سے جھوٹ نہیں بول سکیں تو پھر ہم جھوٹ بولتے کیوں ہیں؟
No comments:
Post a Comment