ماں، جب سماعت سے یہ لفظ ٹکرائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے ؟
جیسے کسی نے گہری سیاہ تاریکی میں شمعیں روشن کر دی ہوں ، جیسے ویران اجاڑ بستی میں بہار آئی ہو، جیسے گرم ریت، کسی جھیل میں تبدیل ہوگئی ہو ۔
ماں ، مہر و محبت کی علامت ہے ، اس کا تصور ہی روح کی سرشاری کے لئے کافی ہے ، بچوں کے لئے وہ قدرت کا بے حد عظیم اور بہت ہی راحت بخش تحفہ ہے ۔لیکن کچھ مائیں اپنے ہی بچوں کو اپنی ممتا سے محروم رکھتی ہیں ۔ اپنے مہرباں ہاتھوں کے لمس سے انھیں محبت و شفقت کا احساس دینے کے بجائے ان کے گالوں پر طمانچے رسید کر تی ہیں۔ ہاں ! بچوں کی کوتاہیوں پر ماں انھیں ضرور سزا دے سکتی ہے ، وہ اس بات کا حق رکھتی ہے ، لیکن کونپلوں
کی مانند نرم و نازک ان فرشتوں پرممتا کی بارش کے بجائے اپنے بے جا غصہ کی دھوپ برسانے کا کیا جواز ہے ۔۔۔؟
اکثر مائیں اتنا ادراک و احساس بھی نہیں رکھتیں کہ بچے بے حد حساس ہوتے ہیں، وہ اس بات پر ذلت محسوس کرتے ہیں کہ انھیں دوسروں کے سامنے مارا پیٹا جائے ۔
لیکن اکثر عوامی مقامات پر یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ مائیں اپنے کم سن بچوں خصوصاً لڑکیوں کو ذرا سی بات پر مارنے لگ جاتی ہیں ۔
کچھ مائیں بچوں کی نفسیات سے واقف ہی نہیں ہوتیں ۔ انھیں اس بات کی بالکل خبر ہی نہیں ہوتی کہ بچوں کے ساتھ کس طرح سلوک کرنا چاہیئے ؟
بچپن میں ماں باپ کا نازیبا رویہ بچوں کی شخصیت پر نہایت مضر اثرات مرتب کرتا ہے وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ ان میں خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے ۔
بچپن کے کسی ناخوش گوار واقعہ کی کوئی یاد ان کے ذہن پر نقش ہوگئی تو پھر تا عمر اس کی اذیت سے نجات نہیں پا سکتے ۔ اور ان کی شخصیت فطری طور پر پروان چڑھنے کے بجائے سکڑ کر رہ جاتی ہے ۔
تیرے پیار کا ساون ایسا برسا ماں !
ٹھنڈا لگتا ہے اب ہر اک صحرا ماں
تیرے ماتھے کی کرنوں سے جگ روشن
تیرے دل کی ہر دھڑکن اک تارا ماں
اپنے پاؤں کی جنت میں اب سونے دے
دھوپ جزیرے میں صدیوں سے جاگي ماں
میں ساحل کی ریت پہ کب کا بیٹھي ہوں
تو لہروں کی روپ میں اب تو آجا ماں !!
ماں ، مہر و محبت کی علامت ہے ، اس کا تصور ہی روح کی سرشاری کے لئے کافی ہے ، بچوں کے لئے وہ قدرت کا بے حد عظیم اور بہت ہی راحت بخش تحفہ ہے ۔لیکن کچھ مائیں اپنے ہی بچوں کو اپنی ممتا سے محروم رکھتی ہیں ۔ اپنے مہرباں ہاتھوں کے لمس سے انھیں محبت و شفقت کا احساس دینے کے بجائے ان کے گالوں پر طمانچے رسید کر تی ہیں۔ ہاں ! بچوں کی کوتاہیوں پر ماں انھیں ضرور سزا دے سکتی ہے ، وہ اس بات کا حق رکھتی ہے ، لیکن کونپلوں
کی مانند نرم و نازک ان فرشتوں پرممتا کی بارش کے بجائے اپنے بے جا غصہ کی دھوپ برسانے کا کیا جواز ہے ۔۔۔؟
اکثر مائیں اتنا ادراک و احساس بھی نہیں رکھتیں کہ بچے بے حد حساس ہوتے ہیں، وہ اس بات پر ذلت محسوس کرتے ہیں کہ انھیں دوسروں کے سامنے مارا پیٹا جائے ۔
لیکن اکثر عوامی مقامات پر یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ مائیں اپنے کم سن بچوں خصوصاً لڑکیوں کو ذرا سی بات پر مارنے لگ جاتی ہیں ۔
کچھ مائیں بچوں کی نفسیات سے واقف ہی نہیں ہوتیں ۔ انھیں اس بات کی بالکل خبر ہی نہیں ہوتی کہ بچوں کے ساتھ کس طرح سلوک کرنا چاہیئے ؟
بچپن میں ماں باپ کا نازیبا رویہ بچوں کی شخصیت پر نہایت مضر اثرات مرتب کرتا ہے وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ ان میں خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے ۔
بچپن کے کسی ناخوش گوار واقعہ کی کوئی یاد ان کے ذہن پر نقش ہوگئی تو پھر تا عمر اس کی اذیت سے نجات نہیں پا سکتے ۔ اور ان کی شخصیت فطری طور پر پروان چڑھنے کے بجائے سکڑ کر رہ جاتی ہے ۔
تیرے پیار کا ساون ایسا برسا ماں !
ٹھنڈا لگتا ہے اب ہر اک صحرا ماں
تیرے ماتھے کی کرنوں سے جگ روشن
تیرے دل کی ہر دھڑکن اک تارا ماں
اپنے پاؤں کی جنت میں اب سونے دے
دھوپ جزیرے میں صدیوں سے جاگي ماں
میں ساحل کی ریت پہ کب کا بیٹھي ہوں
تو لہروں کی روپ میں اب تو آجا ماں !!