Behind this blog, there's a team of devoted writers who write after complete research and fair analysis. Our goal is to make Pakistan a better society and make positive changes in our country. Each and every writer is responsible for his/her own opinions and there's no responsibility of other team members for his/her work. If you wish to write for us please feel free to contact us through "Contact US" page.
Wednesday 11 April 2012
Tuesday 10 April 2012
TWO WOLVES
An old man told his grandson: My son there is a battle between two wolves inside us. One is EVIL - its anger, resentment, gree, lies and ego. The other is GOOD - peace, love, humility, kindness and truth.
The boy thought about it and asked: Grandfather which wolf wins?
The old man quietly replied: The one you feed.
May ALLAH enable us to always feed the GOOD WOLF. May ALLAH forgive us for the times we fed our EVIL WOLF.
The boy thought about it and asked: Grandfather which wolf wins?
The old man quietly replied: The one you feed.
May ALLAH enable us to always feed the GOOD WOLF. May ALLAH forgive us for the times we fed our EVIL WOLF.
دنیا کا سب سے آسان کام کیا ہے ؟ “جھوٹ بولنا “
دیکھا جائے تو آج کا انسان جھوٹ کے سہارے ہی جیتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ سچ بول کر اُس کامیابی نہیں ملے گی اور نہ فائدہ حاصل ہو گا اس لیے وہ جھوٹ بولتا ہی چلا جاتا ہے انسان 90 فیصد اپنی بات جھوٹ کے ساتھ شروع کرتا ہے اور جھوٹ کے ساتھ ہی ختم کرتا ہے۔ جھوٹ بولنے کی بیماری صرف بڑوں میں نہیں بلکہ چھوٹے بچوں میں پائی جاتی ہے وہ بچے جن کو ابھی تک سچ اور جھوٹ کی پہچان تک نہیں ہوئی لیکن وہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اگر وہ جھوٹ بولیں گے تو وہ بڑوں کی مار سے بچ جائیں گے اور انہیں کوئی کچھ نہ کہے گا۔
انسان کو اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے جھوٹ پہ جھوٹ بولتا رہتا ہے۔ جھوٹ انسان کو کہیںکا نہیں چھوڑتا اور اللہ تعالی جھوٹوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔ انسان دوسروں سے جھوٹ بول سکتا ہے یہاں تک اپنے آپ سے بھی جھوٹ بول سکتا ہے لیکن اپنے اللہ تعالی سے نہ جھوٹ بول سکتا ہے، نہ جھوٹ چھپا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے جھوٹ کو سچا ثابت کر سکتا ہے کیونکہ وہ پروردگار سب دیکھ رہا ہے اور وہ دلوںکے بھید خوب جانتا ہے۔ انسان یہ کیوں بھول جاتاہے کہ وہ جھوٹ بول کر دنیا کی ہر چیز سے بچ سکتا ہے مگر اپنے اللہ سے نہیں۔
جب چھوٹے بچے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ماں باپ کی ڈانٹ ، غصے اور مار سے بچنےکے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں کہ ہم نے یہ کام نہیں کیا یا الزام کسی دوسرے پر لگا دیتےہیں یہ بچے جو ابھی دنیا میں آئے ہی ہوتے ہیں جھوٹ کا سہارا لینے لگ جاتے ہیں۔(معذرت کے ساتھ وہ مثال جو بڑے دیا کرتے تھے کہ بچے کبھی جھوٹ نہیں بولتے وہ اب غلط ثابت ہوتی جارہی ہے۔)
بہت بار سُنا بلکہ کرتے دیکھا کہ آفس سے چھٹی کرنے کے لیے باس کے پاس جاتے ہیں اگر چھٹی مل جائے تو ٹھیک اگر نہ ملے تو لوگ اپنے بڑوں کی موت کا بہانہ بناتے ہیں کبھی کبھی مُردہ لوگوںکو دوبارہ مار دیتےہیں یا کبھی کبھی زندہ لوگوںکو مار دیتے ہیں کہ ہمارا دادا/دادی فوت ہوگئے ہیں ، کبھی خالہ کا نام ، کبھی خالو ، کبھی چاچا ، کبھی تایا یہاںتک کے ہم اپنے والدین کو بھی اس لسٹ میں شام کر لیتے ہیں کس لیے صرف ایک چھٹی کے لیے ؟ ایسے لوگوںکو شرم آنی چاہیے اتنا بیہودہ جھوٹ بولتے تھے ایسے لوگوں سے میں ایک سوال کرتا ہوں کہ اگر ایسے لوگوں کے بچے یہی چیز دہرائیں اور اپنے والدین کو جیتے جیتے مار دیں صرف چھٹی لینے کے لیے تو ایسے لوگوںپر کیا گزرے گی کبھی سوچا ہے یہ؟
اسی طرح سٹوڈنٹ لائف میں جب ہمیں اسکول/کالج یا اکیڈمی سے چھٹی لینی ہوتی ہے اور ہم بہت سے رشتوں کو بیمار کرنے کا جھوٹ بولتے ہیں اگر اس بات بن جائے تو ٹھیک ورنہ ہم پیٹ درد ، سر درد ، بخار یا کسی اور بیماری کا جھوٹا بہانہ کر کے چھٹی لینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہمیں باآسانی چھٹی مل جائے۔
آج کل کی جنریشن میں آوارہ گردی بہت عام ہو گئی ہے اور گھنٹوں گھنٹوں گھر سے باہر رہتےہیں پھر گھر لیٹ پہنچنے پر جب والدین کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم ہزاروں جھوٹے بہانے اور من گھرٹ کہانیاں سنانا شروع کر دیتےہیں کہ ہم تو سارا دوستوں کے ساتھ مل کر پڑھائی کر رہے تھے، ہمارے دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ہم سارا دن پسپتال رہے اسی طرح کے ہزاروںجھوٹ ہم خود سے اور اپنے بڑوںسے بول جاتے ہیں۔
انسان اپنا کاروبار چلانے / اپنا مال بیچنے کے لیے جھوٹی قسموں اور جھوٹی باتوں کا سہارا لیتا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ سچ بول کر ان کا مال نہیں بکے گا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا کر مال بِک جاتا ہے مگر برکت نہیںرہتی۔
آج کے دور میں رہ کر اپنی غلطی مان لینا بہت بڑی بات ہوتی ہے لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی غلطی کو سچ کرنے کے لیے ہزاروں جھوٹ بولتا رہتا ہے، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج کا انسان دوسروں کو نیچا دکھانے اور دوسروں کی عزت اُچھالنے کے لیے کس بھی حد سے گزرنے سے گریز نہیں کرتا چاہے اس کے لیے اُسے کتنا ہی جھوٹ کیوں نہ بولنا پڑے۔
اگر ہم اپنے ایک دن کا موازنہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہم ایک دن کتنے جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی جھوٹوں سے نفرت کرتا ہے پھر بھی ہم نڈر ہو کر جھوٹ پہ جھوٹ بولتے جاتے ہیں آخر کیوں؟ کبھی یہ سوچا ہے ہم نے؟
نماز پڑھنے کا جھوٹ، روزہ رکھنے کا جھوٹ ، سچ بولنے کا جھوٹ ، حلال کمانے کا جھوٹ، درگزر کرنے کا جھوٹ ، چغل خوری نہ کرنے کا جھوٹ ، غیبت نہ کرنے کا جھوٹ ، چوری نہ کرنے کا جھوٹ ، زانی نہ ہونے کا جھوٹ ، مشرک نہ ہونے کا جھوٹ ، ظالم نہ ہونے کا جھوٹ ، قاتل نہ ہونے کاجھوٹ ، بیمار ہونے کا جھوٹ وغیرہ وغیرہ جھوٹ پہ جھوٹ ، جھوٹ پہ جھوٹ کیا یہی جھوٹ ہمیں روزِ حشر والے دن بچا سکے گا؟ کیا یہ جھوٹ ہمیں جہنم کی آگ سے بچا سکے گا ، کیا یہ جھوٹ ہمیں اللہ تعالی کے عذاب سے بچا سکے گا ؟ کیا یہ جھوٹ ہمیں جنت میں داخل کروا سکے گا؟
دیکھا جائے تو ہم جھوٹ ہی جھوٹ بولتےہیں اور اس جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے پھر جھوٹ ہی بولتےہیں لیکن کبھی ایک بار اپنے ضمیر کو ٹٹول کر یہ پوچھا ہے کہ
کیا ہم اللہ سے جھوٹ بول سکتے ہیں ؟
کیا ہم جھوٹ بول کر اُس کی ذات سے نہیں بچ سکتے ہیں ؟
کیا کوئی ایسی بات ہے جو ہم اپنے رَب سے چھپا سکتے ہیں؟
نہیں ہم چاہ کر بھی اپنے رَب سے جھوٹ نہیں بول سکیں تو پھر ہم جھوٹ بولتے کیوں ہیں؟
انسان کو اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے جھوٹ پہ جھوٹ بولتا رہتا ہے۔ جھوٹ انسان کو کہیںکا نہیں چھوڑتا اور اللہ تعالی جھوٹوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔ انسان دوسروں سے جھوٹ بول سکتا ہے یہاں تک اپنے آپ سے بھی جھوٹ بول سکتا ہے لیکن اپنے اللہ تعالی سے نہ جھوٹ بول سکتا ہے، نہ جھوٹ چھپا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے جھوٹ کو سچا ثابت کر سکتا ہے کیونکہ وہ پروردگار سب دیکھ رہا ہے اور وہ دلوںکے بھید خوب جانتا ہے۔ انسان یہ کیوں بھول جاتاہے کہ وہ جھوٹ بول کر دنیا کی ہر چیز سے بچ سکتا ہے مگر اپنے اللہ سے نہیں۔
جب چھوٹے بچے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو ماں باپ کی ڈانٹ ، غصے اور مار سے بچنےکے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں کہ ہم نے یہ کام نہیں کیا یا الزام کسی دوسرے پر لگا دیتےہیں یہ بچے جو ابھی دنیا میں آئے ہی ہوتے ہیں جھوٹ کا سہارا لینے لگ جاتے ہیں۔(معذرت کے ساتھ وہ مثال جو بڑے دیا کرتے تھے کہ بچے کبھی جھوٹ نہیں بولتے وہ اب غلط ثابت ہوتی جارہی ہے۔)
بہت بار سُنا بلکہ کرتے دیکھا کہ آفس سے چھٹی کرنے کے لیے باس کے پاس جاتے ہیں اگر چھٹی مل جائے تو ٹھیک اگر نہ ملے تو لوگ اپنے بڑوں کی موت کا بہانہ بناتے ہیں کبھی کبھی مُردہ لوگوںکو دوبارہ مار دیتےہیں یا کبھی کبھی زندہ لوگوںکو مار دیتے ہیں کہ ہمارا دادا/دادی فوت ہوگئے ہیں ، کبھی خالہ کا نام ، کبھی خالو ، کبھی چاچا ، کبھی تایا یہاںتک کے ہم اپنے والدین کو بھی اس لسٹ میں شام کر لیتے ہیں کس لیے صرف ایک چھٹی کے لیے ؟ ایسے لوگوںکو شرم آنی چاہیے اتنا بیہودہ جھوٹ بولتے تھے ایسے لوگوں سے میں ایک سوال کرتا ہوں کہ اگر ایسے لوگوں کے بچے یہی چیز دہرائیں اور اپنے والدین کو جیتے جیتے مار دیں صرف چھٹی لینے کے لیے تو ایسے لوگوںپر کیا گزرے گی کبھی سوچا ہے یہ؟
اسی طرح سٹوڈنٹ لائف میں جب ہمیں اسکول/کالج یا اکیڈمی سے چھٹی لینی ہوتی ہے اور ہم بہت سے رشتوں کو بیمار کرنے کا جھوٹ بولتے ہیں اگر اس بات بن جائے تو ٹھیک ورنہ ہم پیٹ درد ، سر درد ، بخار یا کسی اور بیماری کا جھوٹا بہانہ کر کے چھٹی لینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہمیں باآسانی چھٹی مل جائے۔
آج کل کی جنریشن میں آوارہ گردی بہت عام ہو گئی ہے اور گھنٹوں گھنٹوں گھر سے باہر رہتےہیں پھر گھر لیٹ پہنچنے پر جب والدین کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم ہزاروں جھوٹے بہانے اور من گھرٹ کہانیاں سنانا شروع کر دیتےہیں کہ ہم تو سارا دوستوں کے ساتھ مل کر پڑھائی کر رہے تھے، ہمارے دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ہم سارا دن پسپتال رہے اسی طرح کے ہزاروںجھوٹ ہم خود سے اور اپنے بڑوںسے بول جاتے ہیں۔
انسان اپنا کاروبار چلانے / اپنا مال بیچنے کے لیے جھوٹی قسموں اور جھوٹی باتوں کا سہارا لیتا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ سچ بول کر ان کا مال نہیں بکے گا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹی قسمیں کھا کر مال بِک جاتا ہے مگر برکت نہیںرہتی۔
آج کے دور میں رہ کر اپنی غلطی مان لینا بہت بڑی بات ہوتی ہے لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی غلطی کو سچ کرنے کے لیے ہزاروں جھوٹ بولتا رہتا ہے، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج کا انسان دوسروں کو نیچا دکھانے اور دوسروں کی عزت اُچھالنے کے لیے کس بھی حد سے گزرنے سے گریز نہیں کرتا چاہے اس کے لیے اُسے کتنا ہی جھوٹ کیوں نہ بولنا پڑے۔
اگر ہم اپنے ایک دن کا موازنہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہم ایک دن کتنے جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی جھوٹوں سے نفرت کرتا ہے پھر بھی ہم نڈر ہو کر جھوٹ پہ جھوٹ بولتے جاتے ہیں آخر کیوں؟ کبھی یہ سوچا ہے ہم نے؟
نماز پڑھنے کا جھوٹ، روزہ رکھنے کا جھوٹ ، سچ بولنے کا جھوٹ ، حلال کمانے کا جھوٹ، درگزر کرنے کا جھوٹ ، چغل خوری نہ کرنے کا جھوٹ ، غیبت نہ کرنے کا جھوٹ ، چوری نہ کرنے کا جھوٹ ، زانی نہ ہونے کا جھوٹ ، مشرک نہ ہونے کا جھوٹ ، ظالم نہ ہونے کا جھوٹ ، قاتل نہ ہونے کاجھوٹ ، بیمار ہونے کا جھوٹ وغیرہ وغیرہ جھوٹ پہ جھوٹ ، جھوٹ پہ جھوٹ کیا یہی جھوٹ ہمیں روزِ حشر والے دن بچا سکے گا؟ کیا یہ جھوٹ ہمیں جہنم کی آگ سے بچا سکے گا ، کیا یہ جھوٹ ہمیں اللہ تعالی کے عذاب سے بچا سکے گا ؟ کیا یہ جھوٹ ہمیں جنت میں داخل کروا سکے گا؟
دیکھا جائے تو ہم جھوٹ ہی جھوٹ بولتےہیں اور اس جھوٹ کو سچ کرنے کے لیے پھر جھوٹ ہی بولتےہیں لیکن کبھی ایک بار اپنے ضمیر کو ٹٹول کر یہ پوچھا ہے کہ
کیا ہم اللہ سے جھوٹ بول سکتے ہیں ؟
کیا ہم جھوٹ بول کر اُس کی ذات سے نہیں بچ سکتے ہیں ؟
کیا کوئی ایسی بات ہے جو ہم اپنے رَب سے چھپا سکتے ہیں؟
نہیں ہم چاہ کر بھی اپنے رَب سے جھوٹ نہیں بول سکیں تو پھر ہم جھوٹ بولتے کیوں ہیں؟
A Little boy & his mother were crossing a River...
A Little boy & his mother were crossing a River...
MOTHER : " Please hold my ...hand.."
BOY : "No Mom, You hold my hand."
MOTHER : "Whats the difference?"
BOY : "If I hold your hand & something happens to me...
Chances are that I may let your hand go
but if you hold my hand..
I know for sure, you will never let my hand go.. " :)
Monday 9 April 2012
Verdict of Islam on Men Shaking Hands With Non-Mehram Women
One of the major questions asked by most of the Muslims residing in West is that, shaking hands with a non-mehram woman is permissible or not?
The ‘woman’ in the question includes both Muslim and Non-Muslim women. Though the Eastern countries provide far less places and chances, where non-mehram men and woman can shake hands with each other, on contrary survival is not possible without doing so in the western world. Moreover, shaking hands with a non-mehram woman is regarded as a sin in Islam.
As the Hadeeth of Prophet (PBUH) says:
“For one of you to be stabbed in the head with an iron needle is better for him than that he should touch a woman who is not permissible for him”
This Hadeeth shows the extreme disliking of the act of shaking hands or touching a non-mahram woman. Touching a non-mahram woman is a grievous sin, and receiving a fatal stroke of iron pin on head is better than committing this sin.
The Sunnah of the Holy Prophet (PBUH) is in direct compliance with the message of Quran. Therefore, there is not a single chance that Prophet (PBUH) would do what is against the Quran. Umaymah the daughter of Raqeeqah narrates that:
‘The Messenger of Allah (Peace Be Upon Him) said, “I do not shake hands with women”
This is the clear message of Holy Prophet (PBUH) in case you seek answer to your question of shaking hands with non-mehram women. No reply could be as clear as the reply in the above hadeeth.
Now if Prophet (PBUH) did not shake hands with any women, then the next question that arises in mind is, how did he take the bay’ah (pledge) of all the women?
The custom with men was that, Prophet (PBUH) would take the hand of the other person in his hand and then take his pledge of Tauheed and pronounce him a Muslim. However, in case of women, Prophet (PBUH) adopted a different strategy, which did not require physical touch of any sort. As narrated by Aa’isha (May Allah be Pleased with Her):
“He used to accept the women’s oath of allegiance by words only”
Meaning that he did not apply the same custom of taking pledge of men on the women, there was no handshake and no physical contact.
You will find different tafseers of Mufassareen, where they would mention that during the pledge, the Prophet (PBUH) would ask for a vessel of water, and would dip his hands in to it, and then the women would do the same to complete the pledge. Some of the mufassareeen say that, the Prophet (PBUH) shake hands with woman, with a Qatari Cloak in his hand, and some say that Umar (May Allah be Pleased with Him), would do the hand shake with women on his behalf.
All of these tafaseer are untrue and unauthentic, especially the last one. If you learn Quran, you will know that Prophet (PBUH) was Masoom (infallible), and if the Infallible Prophet (PBUH) could not shake hand with women, then how could Umar (Allah be pleased with him) do so.
Islam is a religion of understanding, so in case of necessity where a woman does not have any other woman to help her, like in medical treatment, removing of tooth, or any eye procedure, then a non-mahram can touch a woman and it would not be considered a sin. Because the act was performed in dire necessity, and there was no other option.
In a nutshell, shaking hands or touching a non-mahram is extremely prohibited in Islam, with no leverage whatsoever. You can only have physical contact with a non-mahram, if he or she is in a medical treatment, and don’t have the option of being taken care by the same gender.
Subscribe to:
Posts (Atom)
Pakistani Awam Ki Mushkilat
Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...
-
Maula Ya Salle Wasallim Junaid Jamshed by f100001310478741 Jalwa-e-Janaan, Jalwa-e-Janaan Jalwa-e-Janaan, Jalwa-e-Janaan ...
-
KHAWAB KI HAQEEQAT AKHHAM-E-ELAHI KI ROSHNI MEIN Ilm-o-Tabeer ki fazeelat yeh hai ke KHUDA WAND TALAH ne isse khas inaam s...
-
Best Collection Of Online Naats Click Here To Download In Mp3