صحیح بخاری شریف میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم، نور مجسم، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، چار علامتیں جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان میں سے ایک علامت ہوئی تو اُس شخص میں نفاق کی ایک علامت پائی گئی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے۔
(1) جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔
(2) جب بار کرے تو جھوٹ بولے۔
(3) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔
(4) جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔
(بخاری شریف، ج1، ص17، حدیث34، دارالفکر بیروت)
امانت کا وسیع مفہوم
امانت کا مفہوم انتہائی وسیع ہے، چنانچہ “قرطبی“ کا قول ہے، امانت دین کی تمام شرائط و عبادات کا نام ہے۔ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نقل فرماتے ہیں، “شرمگاہ امانت ہے، کان امانت ہے، زبان امانت ہے، پیٹ امانت ہے، ہاتھ پاؤں امانت ہیں اور جس میں امانت نہیں اُس کا ایمان نہیں۔“ معلوم ہوا جس نے اعضاء کو نافرمانی میں لگایا وہ بھی خیانت کا مرتکب ہوا۔“ (مکاشفۃ القلوب، صفحہ نمبر 43، )
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے انسان کے تمام اعضاء بنانے سے پہلے شرم گاہ کو بنایا پھر انسان کو مخاطب کرکے فرمایا، “یہ میں اپنی ایک امانت تیرے پاس رکھ رہا ہوں، تو اس کے حقوق کی ادائیگی میں سستی نہ کرنا۔ پس کان امانت ہیں، آنکھ امانت ہے، شرم گاہ امانت ہے، پیٹ امانت ہے اور زبان امانت ہے۔ (نوادر الاصول فی احادیث الرسول، جلد3، صفحہ155)
حضرت سیدنا امام فخرالدین رازی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، “جان لیجئے کہ یہ (یعنی امانت کا) باب بہت وسیع ہے پس زبان کی امانت یہ ہے کہ اس کو جھوٹ، غیبت، چغلی، کفر، بدعت اور فحش وغیرہ سے بچائے اور آنکھ کی امانت داری یہ ہے کہ اس کو حرام دیکھنے کیلئے استعمال نہ کیا جائے اور کانوں کی امانت داری یہ ہے کہ لہو و لعب، ممنوعات، فحش اور جھوٹ وغیرہ سننے میں ان کو استعمال نہ کیا جائے اسی طرح انسان کیلئے تمام اعضاء میں امانت داری لازم ہے۔
(تفسیر کبیر، جلد4، صفحہ 109)
خیانت کا ہولناک عذاب
جب بھی آپ کے پاس کوئی شخص سامان، رقم وغیرہ کوئی سی بھی شے امانتاً رکھوائے یا آپ کسی سے کوئی چیز مثلاً کتاب وغیرہ پڑھنے کیلئے لے لیں تو طے شدہ وقت پر لوٹا دینے کی عادت بنائیے۔ خدا کی قسم! امانت میں خیانت کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی مکاشفۃ القلوب میں نقل کرتے ہیں، “قیامت کے روز ایک شخص بارگاہ خداوندی عزوجل میں پیش کیا جائے گا، اللہ تبارک و تعالٰی فرمائے گا، تو نے فلاں کی امانت لوٹا دی تھی ؟ عرض کریگا، “نہیں“ حکمِ ربی سے فرشتہ اُسے سُوئے جہنم لے چلے گا، وہاں وہ جہنم کی گہرائی میں امانت کو رکھا ہوا دیکھے گا اور اُس کی طرف گرے گا اور ستر سال کے بعد وہاں پہنچے گا، پھر وہ امانت اٹھا کر اوپر کی طرف آئیگا مگر جوں ہی کنارے پر پہنچے گا اُس کا پاؤں پھسل جائیگا اور وہ جھنم کی گہرائی میں جا گرے گا۔ اسی طرح وہ چڑھتا گرتا رہے گا یہاں تک کہ مصطفٰے جانِ رحمت، تاجدار رسالت، شفیع امت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے اُسے رب العزت کی رحمت حاصل ہو جائیگی اور امانت کا مالک اُس سے راضی ہو جائیگا۔“
(مکاشفہ القلوب، ص
44