اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
ترجمہ ”اے بندو تم میرا (اللہ کا) شکر کرو اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو تم تمام کو میری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ (سورة لقمان14)
(ترجمہ)اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنم دیا اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجالاﺅں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہوجائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بداعمال سے درگزر کر لیتے ہیں (یہ) جنتی لوگوں میں سے ہیں۔اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا تھا( سورة الحقاف 15-16)
(ترجمہ) اور تیر ا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا اگر تیری موجودگی میں ان سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ‘نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ تواضح کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کرو جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں بالا۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے“(سورة الاسرار 23-25)
حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمھارا باپ۔''
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا، پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، پھر پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔''
''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے۔ لوگوں نے پوچھا: کس کے لیے، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ماں باپ یا اُن میں سے کوئی ایک اُس کے پاس بڑھاپے کو پہنچا اور وہ اِس کے باوجود (اُن کی خدمت کر کے)۔ جنت میں داخل نہ ہو سکا۔
''عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے جہاد کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمھارے والدین زندہ ہیں ؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: پھر اُن کی خدمت میں رہو، یہی جہاد ہے۔''
''ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ یمن کے لوگوں میں سے ایک شخص (جہاد کی غرض سے)۔ ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : یمن میں کوئی عزیز ہے؟ عرض کیا: میرے ماں باپ ہیں۔ فرمایا: اُنھوں نے اجازت دی ہے؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: جاؤ اور اُن سے اجازت لو، اگر دیں تو جہاد کرو، ورنہ اُن کی خدمت کرتے رہو۔''
''معاویہ اپنے باپ جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمھاری ماں زندہ ہے؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: تو اُس کی خدمت میں رہو، اِس لیے کہ جنت اُس کے پاؤں کے نیچے ہے۔''
''عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں اور اُس کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔''
اللہ تعالی اور اس کے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں باپ سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ لیکن آجکل بعض مسلمان اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ سلوک روا نہیں جو ان کا حق ہے۔بعض خواتین اور حضرات اپنے ماں باپ کے ساتھ نہایت برا سلوک کرتے ہیں لیکن ماں باپ شکایت زبان پر نہیں لاتے۔
درج ذیل میں ایک ماں فریاد کرتی ہے کہ
میرے بچو،گر تم مجھ کو بڑھاپے کے حال میں دیکھو
اُکھڑی اُکھڑی چال میں دیکھو
مشکل ماہ و سال میں دیکھو
صبر کا دامن تھامے رکھنا
کڑوا ہے یہ گھونٹ پہ چکھنا
’’اُف ‘‘ نہ کہنا،غصے کا اظہار نہ کرنا
میرے دل پر وار نہ کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ مرے گر کمزوری سے کا نپ اٹھیں
اور کھانا،مجھ پر گر جائے تو
مجھ کو نفرت سے مت تکنا،لہجے کو بیزار نہ کرنا
بھول نہ جانا ان ہاتھوں سے تم نے کھانا کھانا سیکھا
جب تم کھانا میرے کپڑوں اور ہاتھوں پر مل دیتے تھے
میں تمہارا بوسہ لے کر ہنس دیتی تھی
کپڑوں کی تبدیلی میں گر دیر لگا دوں یا تھک جاؤں
مجھ کو سُست اور کاہل کہہ کر ، اور مجھے بیمار نہ کرنا
بھول نہ جانا کتنے شوق سے تم کو رنگ برنگے کپڑے پہناتی تھی
اک اک دن میں دس دس بار بدلواتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے یہ کمزور قدم گر جلدی جلدی اُٹھ نہ پائیں
میرا ہاتھ پکڑ لینا تم ،تیز اپنی رفتار نہ کرنا
بھول نہ جانا،میری انگلی تھام کے تم نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا
میری باہوں کے حلقے میں گرنا اور سنبھلنا سیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں باتیں کرتے کرتے،رُک جاؤں ،خود کو دھراوں
ٹوٹا ربط پکڑ نہ پاؤں،یادِ ماضی میں کھو جاؤں
آسانی سے سمجھ نہ پاؤں،مجھ کو نرمی سے سمجھانا
مجھ سے مت بے کار اُلجھنا،مجھے سمجھنا
اکتاکر، گھبراکر مجھ کو ڈانٹ نہ دینا
دل کے کانچ کو پتھر مار کے کرچی کرچی بانٹ نہ دینا
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے
ایک کہانی سو سو بار سنا کرتے تھے
اور میں کتنی چاہت سے ہر بار سنا یاکرتی تھی
جو کچھ دھرانے کو کہتے،میں دھرایا کرتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر نہانے میں مجھ سے سُستی ہو جائے
مجھ کو شرمندہ مت کرنا،یہ نہ کہنا آپ سے کتنی بُو آتی ہے
بھول نہ جانا جب تم ننھے منے سے تھے اور نہانے سے چڑتے تھے
تم کو نہلانے کی خاطر
چڑیا گھر لے جانے میں تم سے وعدہ کرتی تھی
کیسے کیسے حیلوں سے تم کو آمادہ کرتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر میں جلدی سمجھ نہ پاؤں،وقت سے کچھ پیچھے رہ جاؤں
مجھ پر حیرت سے مت ہنسنا،اور کوئی فقرہ نہ کسنا
مجھ کو کچھ مہلت دے دینا شائد میں کچھ سیکھ سکوں
بھول نہ جانا
میں نے برسوں محنت کر کے تم کو کیا کیا سکھلایا تھا
کھانا پینا،چلنا پھرنا،ملنا جلنا،لکھنا پڑھنا
اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اس دنیا کی ،آگے بڑھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری کھانسی سُن کر گر تم سوتے سوتے جاگ اٹھوتو
مجھ کو تم جھڑکی نہ دینا
یہ نہ کہنا،جانے دن بھر کیا کیا کھاتی رہتی ہیں
اور راتوں کو کُھوں کھوں کر کے شور مچاتی رہتی ہیں
بھول نہ جانامیں نے کتنی لمبی راتیں
تم کو اپنی گود میں لے کر ٹہل ٹہل کر کاٹی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر میں کھانا نہ کھاؤں تو تم مجھ کو مجبور نہ کرنا
جس شے کو جی چاہے میرا اس کو مجھ سے دور نہ کرنا
پرہیزوں کی آڑ میں ہر پل میرا دل رنجور نہ کرنا
کس کا فرض ہے مجھ کو رکھنا
اس بارے میں اک دوجے سے بحث نہ کرنا
آپس میں بے کار نہ لڑنا
جس کو کچھ مجبوری ہو اس بھائی پر الزام نہ دھرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گر میں اک دن کہہ دوں عرشی ، اب جینے کی چاہ نہیں ہے
یونہی بوجھ بنی بیٹھی ہوں ،کوئی بھی ہمراہ نہیں ہے
تم مجھ پر ناراض نہ ہونا
جیون کا یہ راز سمجھنا
برسوں جیتے جیتے آخر ایسے دن بھی آ جاتے ہیں
جب جیون کی روح تو رخصت ہو جاتی ہے
سانس کی ڈوری رہ جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شائد کل تم جان سکو گے ،اس ماں کو پہچان سکو گے
گر چہ جیون کی اس دوڑ میں ،میں نے سب کچھ ہار دیا ہے
لیکن ،میرے دامن میں جو کچھ تھا تم پر وار دیا ہے
تم کو سچا پیار دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں مر جاؤں تو مجھ کو
میرے پیارے رب کی جانب چپکے سے سرکا دینا
ا ور ،دعا کی خاطر ہاتھ اُٹھا دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے رب سے کہنا،رحم ہماری ماں پر کر دے
جیسے اس نے بچپن میں ہم کمزوروں پر رحم کیا تھا
بھول نہ جانا،میرے بچو
جب تک مجھ میں جان تھی باقی
خون رگوں میں دوڑ رہا تھا
دل سینے میں دھڑک رہا تھا
خیر تمہاری مانگی میں نے
میرا ہر اک سانس دعا تھا
________________
یا الله ہمارے سروں پر ماں باپ کا سایہ ہمیشہ قائم رکھ اور ہمیں ان کی فرمانبرداری کرنے اور انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما
یا اللہ اگر ہم سے کہیں بھول چوک ہو جائے تو اسے درگزر فرما دے،
اے میرے مالک ہماری اصلاح فرما دے اور ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار بنا دے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین
No comments:
Post a Comment