Saturday 10 March 2012

اللہ تعالی ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے

جب تمہیں‌نوازا جاتا ہے وہ “الرحمن “ ہے

جب تم بھوکے ہوتے ہو وہ “الرزاق“ ہے

جب تمہیں عزت عطا کی جاتی ہے وہ “المعز“ ہے

جب تم بیمار ہوتے ہو وہ “المُقیت“ ہے


جب تم دُعا کرتے ہو وہ “المُجیب“ ہے

جب تمہیں‌ دوست کی ضرورت ہوتی ہے وہ “الولی“ ہے

جب تم بھٹک جاتے ہو وہ “الھادی“ ہے

جب تمہیں عطا کیا جاتا ہے وہ “الکریم“ ہے

جب تمہیں‌معاف کیا جاتا ہے وہ “الغفور“ ہے

جب تم نا اُمیدیوں کے اندھیرے میں‌ ہوتے ہو وہ “النور“ ہے

جب تم گہنگار ہو وہ “التواب“ ہے

Imam Ghazali



Jungle mein 1 shakhs k peche shair lag jata ha... vo apni jan bachane k liye kunvein mein chalang laga deta ha or 1 rassi se latak jata ha, jb neche dekhta ha to boht barra azdaha betha hota ha... Itne mein 2 chuhey sufaid or kaley rang k, kunwein ki rassi ko kutarne lag jate hein... Achanak kunvein mein osko shehd ka chhatta nzr ata ha, vo shehd ko ungli se zuban mein lagata ha... Shehd ki mithas se osko upar mojod shair, neche betha azdha or rassi ko cut krte howe chuhe bhol jate hein, vo bhol jata ha k akhir ousne girna neche he ha

Imam Ghazali likhte hein k, eis sheir mein mot ha jo her waqat tmhare k peche ha,,, azdha qabar ha jis mein her hal mein tum ne jana ha.... 2 chuhey din or raat hein jo tmhari zindagi ki rassi ko dhere dhere kaat rahe hein... Or shehd tmhari dunia ha jisko thora sa chakho to tumhein Mot, Qabar, Waqt, Akhirat sb bhol jata ha

چہرے کا پردہ



سوال :
ہمارے ہاں کچھ روشن خیال لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں عورت کیلئے چہرے کا پردہ ضروری نہیں ہے جب ان کے سامنے یہ آیت پیش کی جاتی ہے ۔ ” اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادر کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ “ ( الاحزاب : 59 ) وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم پر لپیٹنا ہے جسے پنجابی میں بکل مارنا کہتے ہیں ۔ براہ کرم اس الجھن کو دور کریں ۔ ( محمد علی )

جواب :
دراصل عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے باقی تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے اگر اسے ننگا رکھنے کی اجازت دی جائے اور اسے شرعی حجاب سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو حجاب کے احکام بے سود ہیں ، سوال میں آیت کریمہ کا جو معنی کیا گیا ہے یہ لغوی ، عقلی اور نقل کے اعتبار سے غلط ہے ، اب ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔

لغوی لحاظ سےادناءکا معنی قریب کرنا ، جھکانا اور لٹکانا ہے ، قرآن میں یدنین کے بعد علی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کسی چیز کو اوپر سے لٹکا دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جب اس کا معنی لٹکانا ہے تو اس کا معنی سر سے لٹکانا ہے جس میں چہرہ کا پردہ خود بخود آ جاتاہے ۔

عقلی اعتبار سے اس لئے غلط ہے کہ اگر کوئی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی سارا جسم دکھا دیا جائے ، تو وہ اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کرے گا یہ ممکن ہے کہ لڑکی کا صرف چہرہ دکھا دیا جائے تو وہ مطمئن ہو جائے ، جب یہ چیزیں ہمارے مشاہدہ میں ہیں تو چہرے کو پردے سے کیونکر خارج کہا جا سکتا ہے ۔

نقل کے اعتبار سے بھی یہ معنی درست نہیں ہے کیونکہ سورت احزاب5 ہجری میں نازل ہوئی ، اس کے بعد واقعہ افک 6ہجری میں پیش آیا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں کہ میں اسی جگہ بیٹھی رہی ، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی ، حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ وہاں آئے ، اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور اونچی آواز سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ، اتنے میں میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا ۔ ( صحیح بخاری ، المغازی : 1041 )

بہرحال روشن خیال لوگوں کا یہ مؤقف مبنی برحقیقت نہیں ہے کہ چہرے کا پردہ مطلوب نہیں ، بلکہ اس سلسلہ میں صحیح مؤقف یہی ہے کہ چہرے کا پردہ اسلام میں مطلوب ہے ، اسلامی معاشرتی زندگی کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ ( واللہ اعلم )

مہر و محبت کا پیکر ، لیکن



ماں، جب سماعت سے یہ لفظ ٹکرائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے ؟
 
جیسے کسی نے گہری سیاہ تاریکی میں شمعیں روشن کر دی ہوں ، جیسے ویران اجاڑ بستی میں بہار آئی ہو، جیسے گرم ریت، کسی جھیل میں تبدیل ہوگئی ہو ۔
ماں ، مہر و محبت کی علامت ہے ، اس کا تصور ہی روح کی سرشاری کے لئے کافی ہے ، بچوں کے لئے وہ قدرت کا بے حد عظیم اور بہت ہی راحت بخش تحفہ ہے ۔لیکن کچھ مائیں اپنے ہی بچوں کو اپنی ممتا سے محروم رکھتی ہیں ۔ اپنے مہرباں ہاتھوں کے لمس سے انھیں محبت و شفقت کا احساس دینے کے بجائے ان کے گالوں پر طمانچے رسید کر تی ہیں۔ ہاں ! بچوں کی کوتاہیوں پر ماں انھیں ضرور سزا دے سکتی ہے ، وہ اس بات کا حق رکھتی ہے ، لیکن کونپلوں
کی مانند نرم و نازک ان فرشتوں پرممتا کی بارش کے بجائے اپنے بے جا غصہ کی دھوپ برسانے کا کیا جواز ہے ۔۔۔؟
اکثر مائیں اتنا ادراک و احساس بھی نہیں رکھتیں کہ بچے بے حد حساس ہوتے ہیں، وہ اس بات پر ذلت محسوس کرتے ہیں کہ انھیں دوسروں کے سامنے مارا پیٹا جائے ۔
لیکن اکثر عوامی مقامات پر یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ مائیں اپنے کم سن بچوں خصوصاً لڑکیوں کو ذرا سی بات پر مارنے لگ جاتی ہیں ۔
کچھ مائیں بچوں کی نفسیات سے واقف ہی نہیں ہوتیں ۔ انھیں اس بات کی بالکل خبر ہی نہیں ہوتی کہ بچوں کے ساتھ کس طرح سلوک کرنا چاہیئے ؟
بچپن میں ماں باپ کا نازیبا رویہ بچوں کی شخصیت پر نہایت مضر اثرات مرتب کرتا ہے وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ ان میں خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے ۔
بچپن کے کسی ناخوش گوار واقعہ کی کوئی یاد ان کے ذہن پر نقش ہوگئی تو پھر تا عمر اس کی اذیت سے نجات نہیں پا سکتے ۔ اور ان کی شخصیت فطری طور پر پروان چڑھنے کے بجائے سکڑ کر رہ جاتی ہے ۔

تیرے پیار کا ساون ایسا برسا ماں !
ٹھنڈا لگتا ہے اب ہر اک صحرا ماں
تیرے ماتھے کی کرنوں سے جگ روشن
تیرے دل کی ہر دھڑکن اک تارا ماں
اپنے پاؤں کی جنت میں اب سونے دے
دھوپ جزیرے میں صدیوں سے جاگي ماں
میں ساحل کی ریت پہ کب کا بیٹھي ہوں
تو لہروں کی روپ میں اب تو آجا ماں !!

JUNAID JAMSHED BEST COLLECTION OF MP3 BAYANS


Hajj Bayan At Mina


Allah ka Khauff - Part 01


Allah ka Khauff - Part 02


Benefits of Salah - The Way of Muslims


Fazilat e Ibadat


Gheebat ka Bayan


Ghussay ke Nuqsanaat - Part 01


Ghussay ke Nuqsanaat - Part 02


Haqiqat e Insaan


Insaan Ka Maqsaad Zindaghi


Kalmay ki Fazilat


Sharjah Markaz - Part 1


Sharjah Markaz - Part 2


Taqwa


Tarjihaat e Insaan


Zikr e Habib (pbuh)


Zikr o Fikar - Part 01


Zikr o Fikar - Part 02


Tableegh ul Jamaat




ABH KOI UMAR NAHI AAYE GHA

TO REA PLEASE RIGHT CLICK ON IMAGE AND OPEN IN NEW WINDOW

ہارون الرشید بادشاہ



ہارون الرشید بادشاہ اپنی بیگم زبیدہ خاتون کے ہمراہ دریا کنارے ٹہل رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک معروف بزرگ بہلول سے ہو گئی۔
بہلول ریت پر گھر بنا رہے تھے ۔ انہوں بادشاہ سے کہا یہ گھر ایک دینار میں خرید لو ۔میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں ایک گھر عطا کر دے ۔ بادشاہ نے اسے دیوانے کی بڑ سمجھا اور آگے بڑ ھ گئے ۔ البتہ ملکہ نے انھیں ایک دینار دے کر کہا کہ میرے لیے دعا کیجئے گا۔
رات کو بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ جنت میں ان کی بیگم کا محل بنادیا گیا ہے ۔
اگلے دن بادشاہ نے بہلول کو وہی کچھ کرتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا کہ میں بھی جنت میں محل خریدنا چاہتا ہوں ۔بہلول نے جواب دیا کہ آج اس محل کی قیمت پوری دنیا کی بادشاہی ہے ۔بادشاہ نے کہا کہ یہ قیمت میں تو کیا کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ مگر کل سے آج تک تم نے اس گھر کی قیمت اتنی کیوں بڑ ھادی۔
بہلول نے جواب دیا جنت کاسودا بن دیکھے بہت سستا ہے ، مگر دیکھنے کے بعد ساری دنیا کی بادشاہت بھی اس کی کم قیمت ہے

یہ ظاہر ہے کہ ایک حکایت ہے جس کی صحیح یا غلط ہونے کی بحث غیر متعلقہ ہے لیکن جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ ایک حقیقت ہے ۔ آخرت کی آنے والی دنیا کی ہر حقیقت اتنی غیر معمولی ہے کہ اس کے سامنے ساری دنیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے

سچ یہ ہے کہ آخرت کا ہر سودا ایسا ہے کہ انسان اس کے لیے سب کچھ دے ڈالے ، مگر غیب کے پردے کی بنا پر یہ سودا بہت سستا ہے ۔ کل قیامت کے دن انسان ہر قیمت دے کر یہ سودا کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا، مگر اس روز کسی قیمت پر یہ سودا نہیں کیا جائے گا

Pakistani Awam Ki Mushkilat

 Ajjkal Pakistani Awam ko Kayi Mushkilat Darpaesh Hain Jismein Awal Number Per Mere Mutabiq Mehngai Hai Aur Dusre Number Per Laqanooniat. Go...